تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

Kiya zakat ki raqm me hilae share zaroro hai.......کیا زکوٰۃ کی رقم میں حیلئہ شرعی ضروری ہے؟

0

Kiya zakat ki raqm me hilae share zaroro hai؟

 ‭‮‭‮ کیا زکوٰۃ کی رقم میں حیلئہ شرعی ضروری ہے؟

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ 

کیافرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام  مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ ( الف) زکوۃ کی رقم دارالعوام میں صرف کرنے کےلئے ۔کیاحیلئہ شرعی ضرور ی ہے؟ 

( ب) اس حیلئہ شرعی کی حکمت کیا ہے 

( ج) زید کا کہناہے کہ کسی فقیر ومسکین کے ہاتھ سے حیلئہ شرعی کرنےکے بجائے کیوں نہ  ہم خود طالب علم  یا ا ن کے والد کے ہاتھ زکوۃ کی رقم  تھما دیں

دریافت امر یہ ہےکہ کیا زید کا قول درست ہے؟ کیا اسطرح زکوۃ ادا ہوجائے گی؟

قرآن  وحدیث کی کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی 

 

المستفتی: محمد حضیرالدین مصباح ناظم اعلی دارالعلوم اہل سنت انوار مصطفی شاہ پورا گوگاواں ضلع کھرگون مدھیہ


〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالی

زکوٰۃ کے رقوم کا اصل مستحقین غرباء ومساکین ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا الخ۔۔۔ ( پارہ 10 سورہ توبہ آیت60)۔   


ہاں زکوۃ کی رقم دارالعوام میں صرف کرنے کےلئے حیلئہ شرعی ضرور ی ہے دینی مدارس اسلامیہ کے لئے حیلہ شرعی کی اس لئے ضرورت پڑی کہ مدارس اسلامیہ کی بقا وتحفظ کا اصل مدار اہل ثروت کی عطیات و خیرات پر ہے اب رفتہ رفتہ اہل ثروت سے دینی حمیت،مالی تعاون اور صدقات نافلہ کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے تو دینی مدارس اسلامیہ کی بقا وتحفظ کی خاطر ہمارے فقہائے کرام نے دینی مدارس اسلامیہ کے لئے زکوٰۃ کی رقم کو حیلہ شرعی کرکے استعمال کرنے کو جائز قرار دیا ہے تاکہ اسلام کے یہ مراکز برقرار رہیں اور محصل سے لے کر انتظامیہ تک ہر شخص حرام کے ارتکاب سے بچ سکے۔ 


مبسوط میں ہے : ما يتخلص به الرجل من الحرام و يتوصل به الي الحلال. ترجمہ : جس کے ذریعہ انسان حرام سے چھٹکارا پاکر حلال تک پہنچے۔ ( ج 30 صفحہ 230 دار الکتب العلمیۃ بیروت) ۔  


 فتاویٰ ہندیہ میں ہے: أن كل حيلة يحتال بها الرجال لابطال حق الغير أو لإدخال شبهة فيه أو لتمويه باطل فهي مكروهة وكل حيلة يحتال بها الرجل ليتخلص بها عن حرام او ليتوصل بها الي حلال فهي حسنة والأصل في جواز هذا النوع من الحيل قول الله تعالى وخذ بيدك ضغثا فاضرب به ولا تحنث وهذا تعليم المخرج لايوب النبي عليه وعلي نبينا الصلاة والسلام عن يمينه التي حلف ليضربن امرأته مائه عود و عامة المشايخ على أن حكمها ليس بمنسوخ وهوا لصحيح من المذهب كذا في الذخيرة . ( ج6 کتاب الحیل، الفصل الاول فی بیان جواز الحیل عدم جوازھا صفحہ 390)۔


(ج)حیلہ شرعی اس سے کرایا جائے جو سنی صحیح العقیدہ عاقل و بالغ غیر صاحب نصاب مسلمان جو بنی ہاشم سے نہ ہوں اسے بہ نیت زکوٰۃ دے دیا جائے پھر وہ اپنی طرف سے اس نیک کام کے لیے دیدے جس کے لیے یہ حیلہ کیا گیا۔ اگرطالب علم یاان کے والد مالک نصاب نہ ہو تو زیدطالب علم یا ا ن کے والد کے ہاتھ سے حیلہ شرعی کر سکتے ہیں ورنہ نہیں۔   


واللہ اعلم سبحانہ وتعالیٰ ورسولہ اعلم ﷺ

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

 _کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ_ 

حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی،خادم سعدی دار الافتاء، متوطن :نل باڑی، سوناپور ہاٹ، اتردیناجپور بنگال

*27/ شوال المکرم 1441ھ* 

*20/ جون 2020 ء*

 *_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_ 

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad