تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

Musalmano ko kafiron ke meloon me tijarat ke liye Jana kaisa hai?_____مسلمانوں کو کافروں کے میلوں میں تجارت کے لئے جانا کیسا ہے؟؟

0

Musalmano ko kafiron ke meloon me tijarat ke liye Jana kaisa hai?

 

 مسلمانوں کو کافروں کے میلوں میں تجارت کے لئے جانا کیسا ہے؟

  اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎    
اگر کوئی مسلم شخص کافر کے چھٹ میں جو  میلا لگتا ہے وہ اپنا سامان بیچے تو اس کا حکم عند شرع کیا ہے

ساٸل : محمد ارمان رضا رضوی
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالی
اعلی حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : اگر وہ میلہ اُن کا مذہبی ہے جس میں جمع ہوکر اعلان کفر و ادائے رسومِ شرک کریں گے تو بقصدِ تجارت بھی جانا ناجائز ومکروہِ تحریمی ہے، اور ہر مکروہِ تحریمی صغیرہ، اور ہرصغیرہ اصرار سے کبیرہ۔ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ معابدِ کفّار میں جانا مسلمان کو جائز نہیں، اور اس کی علت یہی فرماتے ہیں کہ وہ مجمع شیاطین ہیں، یہ قطعاً یہاں بھی متحقق، بلکہ جب وہ مجمع بغرض عبادت غیر خدا ہے تو حقیقۃً معابدِ کفّار میں داخل کہ معبد بوجہ اُن افعال کے معبد ہیں،نہ بسبب سقف ودیوار، وھذا ظاھر جدّا، فی الھندیة عن التاتارخانیۃ عن الیتیمة، یکرہ للمسلم الدخول فی البیعة والکیسة وانما یکرہ من حیث انه مجمع الشیاطین۔یہ بلاشبہ ظاہر ہے، فتاوٰی عالمگیری میں تاتارخانیہ میں الیتیمہ کے حوالے سے منقول ہے کہ کسی مسلمان کے لئے یہودیوں اور عیسائیوں کے گرجوں میں جانا مکروہ ہے اور کراہیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ شیاطین کی جائے اجتماع ہیں۔بحرالرائق میں اسے نقل کر کے فرمایا :والظاھر انھا تحریمة لانھا المرادۃ عند اطلاقھم۔اور ظاہر یہ ہےکہ کراہت تحریمی ہے، اس لئے کہ ائمہ کرام کے علی الاطلاق فرمانے سے یہی مراد ہواکرتی ہے۔رد المحتار میں اس پر ان لفظوں سے تفریع کی :فاذا حرم الدخول فالصلٰوۃ اولي۔جب وہاں جانا حرام ہے تو وہاں نماز پڑھنا بطریق اولٰی حرام ہوگا۔اور اگر وہ مجمع مذہبی نہیں بلکہ صرف لہوولعب کا میلا ہے تو محض بغرض تجارت جانا فی نفسہٖ ناجائز وممنوع نہیں جبکہ کسی گناہ کی طرف مودی نہ ہو، علماء فرماتے ہیں مسلمان تاجر کو جائزکہ کنیز وغلام وآلات حرب مثلِ اسپ وسلاح وآہن وغیرہ کے سوا اور مال کفّار کے ہاتھ بیچنے کے لئے دار الحرب میں لے جائے اگرچہ احتراز افضل، توہندوستان میں کہ عند التحقیق دارالحرب نہیں، مجمع غیرمذہبی کفرہ میں تجارت کے لئے مال لے جانا بدرجہ اولٰی جواز رکھتاہے۔فی الھندیة عن المبسوط قال محمد رحمه ﷲ تعالي لاباس بان یحمل المسلم الي اھل الحرب ماشاء الا الکراع والسلاح والسبی وان لایحمل الیھم شیئا، احب الی۔فتاوٰی عالمگیری میں بحوالہ مبسوط درج ہے کہ امام محمد رحمۃ ﷲ علیہ نے فرمایا مسلمان دار الکفر میں سوائے گھوڑے، ہتھیار اور غلام کے جو چاہے لیجاسکتاہے اس میں کوئی حرج نہیں البتہ کوئی ایسی چیزلے کر دارِ کفر میں نہ جائے تو پسندیدہ امر ہے۔اُسی میں ہے :اذا اراد المسلم ان یدخل دار الحرب بامان للتجارۃ و معه فرسه و سلاحه وھو لایرید بیعه منھم لم یمنع ذٰلک منه۔جب کوئی مسلمان تجارت اور کاروبار کیلئے دارِ حرب میں داخل ہونا چاہے اور اس کے پاس گھوڑے اور ہتھیار ہوں اور وہ انہیں حربیوں پر فروخت کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو مذکورہ اشیاء کے لے جانے سے اسے نہ روکا جائے گا۔پھر بھی کراہت سے خالی نہیں کہ وہ ہر وقت معاذ ﷲ محلِ نزولِ لعنت ہیں تو اُن سے دوری بہتر، یہاں تک کہ علماء فرماتے ہیں اُن کے محلہ میں ہو کر گزر ہو تو شتابی کرتا ہوا نکل جائے وہاں آہستہ چلنا ناپسند رکھتے ہیں تو رکنا ٹھہرنا بدرجہ اولٰی مکروہ۔فی الطحطاویة عن ابی السعود عن الشرنبلالیة دارھم محل تنزل اللعنة فی کل وقت ولاشک انه یکرہ الکون فی جمع یکون کذٰلک بل وان یمر فی امکنتھم الا ان یھرول ویسرع وقد وردت بذٰلک اٰثار؎ الخ قلت والمراد ھٰھنا کراھة التنزیه بدلیل مامر فی جواز دخول دارھم للتجارۃ وبدلیل ماثبت حدیثا وفقھا من جواز الذھاب الی ضیافتھم کما فی الھندیة وغیرھا ونقلوہ عن محرر المذھب محمد رحمہ ﷲ تعالي۔طحطاوی میں ابو السعود کے حوالہ سے شرنبلالیہ سے نقل کیا گیاہے، وہ ایسی جگہیں ہیں جہاں ہر وقت لعنت برستی رہتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں ایسی مجلس اور اجتماع ہو وہاں ٹھہرنا مکروہ ہے بلکہ ان مقامات کے پاس سے گزرنا بھی مکروہ ہے الاّ یہ کہ دوڑتے ہوئے جلدی سے گزرجائے (اور وہاں سے نکل جائے) آثار میں یہی وارد ہے الخ قلت (میں کہتاہوں کہ) یہاں مکروہ سے مکروہ تنزیہی مراد ہے اس دلیل سے جو پہلے گزرچکی ہے کہ ان کے گھروں یابستیوں میں بغرضِ تجارت جاناجائزہے اور اس دلیل سے بھی کہ حدیث اور فقہ سے ثابت ہے کہ ان کی دعوتوں میں جاناجائزہے جیسا کہ ہندیہ وغیرہ میں مندرج ہے اور اس کو ائمہ فقہ نے راقم المذہب حضرت امام محمد رحمہ ﷲ تعالیٰ سے نقل کیاہے۔پھر ہم صدر کلام میں ایما کرچکے کہ یہ جواز بھی اُسی صورت میں ہے کہ اسے وہاں جانے میں کسی معصیت کا ارتکاب نہ کرنا پڑے مثلاً جلسہ ناچ رنگ کا ہو اور اسے اس سے دور وبیگانہ موضع میں جگہ نہ ہو تو یہ جانا مستلزمِ معصیت ہوگا اور ہرملزوم معصیت معصیت اور جانا محض بغرضِ تجارت ہو نہ کہ تماشا دیکھنے کی نیت کہ اس نیت سے مطلقاً ممنوع اگرچہ مجمع غیر مذہبی ہو۔وذٰلک لان اعیادھم ومجامعھم لاتنفک عن القبائح الشنیعة والمنکرات القطعیة والتفرح علی الحرام حرام کما نص علیه فی الدر المختار وغیرہ،۔اس لئے کہ ان کی عیدیں اور مجلسیں بدترین قباحتوں اور رسواکن منکرات پر مشتمل ہوتی ہیں اور حرام سے خوش ہونا بھی حرام ہے جیسا کہ درمختار وغیرہ میں تصریح فرمائی گئی ہے۔( جلد 23 صفحہ 526/522
۔واللہ تعالیٰ اعلم

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سوناپور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال، الہند۔
*5/ ربیع الاخر 1442ھ*
*21/ نومبر 2020ء *
*_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰*

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad