تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

کب کھڑے ہو کر اور کب بیٹھ کر تکبیر تحریمہ کہنا جائز ہے؟

0
کب کھڑے ہو کر اور کب بیٹھ کر تکبیر تحریمہ کہنا جائز ہے؟



السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نماز کھڑے ہوکر بوجہ عذر بیماری کے نہیں پڑھ سکتا لیکن اس قدر اس کو طاقت ہے کہ تکبیر تحریمہ کھڑے ہو کر باندھ سکتے ہیں اور باقی ارکان بیٹھ کر رکوع وسجود کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں تو اسی صورت میں کیا حکم ہے رہنمائی فرمائیں ۔


  المستفتی: محمد اشفاق

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالی

فتاویٰ رضویہ میں ہے : صورت ِمستفسرہ میں بیشک اُس پر لازم کہ تحریمہ کھڑے ہو کر باندھے جب قدرت نہ رہے بیٹھ جائے ۔یہی صحیح ہے، بلکہ ائمہ رضوان ﷲ تعالٰی اجمعین سے اس کا خلاف اصلاً منقول نہیں ۔تنویر الابصار ودرمختار میں ہے : ان قدر علی بعض القیام ولو متکأ علی عصا اوحائط قام لزوما بقدر مایقدر ولوقد راٰیة او تکبیرۃ علی المذھب لان البعض معتبر بالکل اگر نمازی قیام پر قادر ہو اگر چہ وہ عصا یا دیوار کے ذریعے ہو تو اس پر حسبِ طاقت قیام کرنا لازم ہے خواہ وہ ایک آیت یا تکبیر کی مقدار ہو۔ مختار مذہب یہی ہے کیونکہ بعض کا کل کے ساتھ اعتبار کیا جاتا ہے۔تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق للعلامہ الزیلعی میں ہے :ولو قدر علی بعض القیام دون تمامه بان کان قدر علی التکبیر قائما او علی التکبیروبعض القراءۃ فانه یؤمر بالقیام و یأتی بما قدر علیہ ثم یقعد اذاعجز۔اگر کچھ قیام پر قادر ہو تمام پر نہ ہو، مثلاً کھڑے ہوکر تکبیر یا تکبیر اور کچھ قرأت پر قادر ہو تو اسے قیام کا حکم دیا جائے اور وہ حسبِ طاقت قیام کے ساتھ بجا لائے ، پھر جب عاجز آئے تو بیٹھ جائے۔خانیہ میں ہے:ولو قدر علی ان یکبر قائما ولایقدر علی اکثر من ذلک یکبر قائما ثم یقعد۔اگر کھڑ ے ہوکر صرف تکبیر کہنے پر قادر ہے اس سے زیادہ پر قادر نہیں تو کھڑے ہو کر تکبیر کہے پھر بیٹھ جائے۔ غنیہ شرح المنیہ للعلامہ ابراہیم حلبی میں ہے:لو قدر علی بعض القیام لا کله لزمه ذلک القدر حتی لوکان لایقدر الاعلی قدر التحریمة لزمه ان یتحرم قائما ثم یقعد۔اگر کچھ قیام پرقادر ہے تمام پر نہیں تو اس پر اس کی مقدار قیام لاز م ہے حتٰی کہ اگر کوئی صرف تکبیر تحریمہ کے مقدار پر قادر ہو تو کھڑا ہوکر تکبیر تحریمہ کہے پھر بیٹھ جائے۔


آج کل بہت جہّال ذرا سی با طاقتی مرض یا کبر سن میں سرے سے بیٹھ کر فرض پڑھتے ہیں حالانکہ اولاً ان میں بہت ایسے ہیں کہ ہمّت کریں تو پُورے فرض کھڑے ہوکر ادا کر سکتے ہیں اور اس ادا سے نہ ان کا مرض بڑھے نہ کوئی نیا مرض لاحق ہو نہ گر پڑنے کی حالت ہو نہ دوران سر وغیرہ کوئی سخت الم شدید ہو صرف ایک گونہ مشقت و تکلیف ہے جس سے بچنے کو صراحۃً نمازیں کھوتے ہیں ہم نے مشاہدہ کیا ہے وہی لوگ جنھوں نے بحلیہ ضعف و مرض فرض بیٹھ کر پڑھتے اور وہی باتوں میں اتنی دیر کھڑے رہے کہ اُتنی دیر میں دس بارہ رکعت ادا کر لیتے ایسی حالت میں ہر گز قعود کی اجازت نہیں بلکہ فرض ہے کہ پُورے فرض قیام سے ادا کریں۔


ثانیاً مانا کہ انھیں اپنے تجربہ سابقہ خواہ کسی طبیب مسلمان حاذق عادل مستورالحال غیر ظاہر الفسق کے اخبار خواہ اپنے ظاہر حال کے نظر صحیح سے جو کم ہمتی و آرام طلبی پر مبنی نہ ہو بظن غالب معلوم ہے کہ قیام سے کوئی مرض جدید یا مرض موجود شدید و مدید ہوگا مگر یہ بات طول قیام میں ہوگی تھوڑی دیر کھڑے ہونے کی یقیناً طاقت رکھتے ہیں تو ان پر فرض تھا کہ جتنے قیام کی طاقت تھی اُتنا ادا کرتے یہاں تک کہ اگر صرف ﷲ اکبر کھڑے ہو کر کہہ سکتے تھے تو اتنا ہی قیام میں ادا کرتے جب وہ غلبہ ظن کی حالت پیش آتی تو بیٹھ جاتے یہ ابتدا سے بیٹھ کر پڑھنا بھی ان کی نماز کا مفسد ہُوا۔


ثالثاً ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ بقدر تکبیر بھی کھڑے ہونے کی قوت نہیں رکھتا مگر عصا کے سہارے سے یا کسی آدمی خواہ دیوار یا تکیہ لگا کر کُل یا بعض قیام پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سہارے یا تکیہ کے ذریعے سے کرسکے بجالائے ، کُل توکُل یا بعض تو بعض ورنہ صحیح مذہب میں اس کی نماز نہ ہوگی۔تبیین الحقائق میں ہے: لو قدر علی القیام متکأ (قال الحلوانی) الصحیح انہ یصلی قائما متکأ ولا یجزیه غیرذلک وکذلک لو قدر ان یعتمد علی عصا اوعلی خادم لہ فانه یقوم ویتکیئ ۔اگر سہارے سے قیام کرسکتا ہو (حلوانی نے کہا ) تو صحیح یہی ہے کہ سہارے سے کھڑے ہوکر نماز ادا کرے اس کے علاوہ کفایت نہ کریگی اور اسی طرح اگر عصا یا خادم کے سہارے سے کھڑا ہوسکتا ہے تو قیام کرے اور سہارے سے نماز ادا کرے۔


یہ سب مسائل خوب سمجھ لئے جائیں باقی اس مسئلہ کی تفصیل تام و تحقیق ہمارے فتاوٰی میں ہے جس پر اطلاع نہایر ضرور واہم کہ آجکل نا واقفی سے جاہل تو جاہل بعض مدعیانِ علم بھی ان احکام کا خلاف کرکے ناحق اپنی نمازیں کھوتے اور صراحۃً مرتکب گناہ و تارک صلوٰۃ ہوتے ہیں (جلد 6 صفحہ 161/158)۔


   وﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

 کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حــضـــرت مفتی محمــــــــد مـظـہـر حــسـین سـعــدی  الـقــادری،خــادم سعدی دار الافـتـاء،متوطن : نل باڑی، سوناپور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال، الـھـــــنــد۔

*21/ شعبان المعظم1441ھ* 

*16/ اپریل 2020 ء *

 *_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_ 

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad