تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

غیر مسلم کی زمین کو سود بندھک لینا کیسا،اور اس سے فائدہ اُٹھانا کیسا، اور مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کی لین دین کرنا کیسا ہے؟؟

0

غیر مسلم کی زمین کو سود بندھک لینا کیسا،اور اس سے فائدہ اُٹھانا کیسا، اور مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کی لین دین کرنا کیسا ہے؟؟

 غیر مسلم کی زمین کو سود بندھک لینا کیسا،اور اس سے فائدہ اُٹھانا کیسا، اور مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کی لین دین کرنا کیسا ہے؟

 السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک غیر مسلم بوجہ مجبوری اپنی زمین خالد کے پاس پچاس ہزار کے عوض گروی رکھا خالد کا اس زمین سےفائدہ اٹھانا کیسا ہے ؟

اور مسلمانوں میں بھی یہی طریقہ ہے تو کیا ایک مسلمان بھائی کی زمین سے دوسرا مسلمان بھائی اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟ اور ایک سال یا دو سال کے بعد روپے واپس دیکر اپنی زمین واپس لے لیتے ہیں۔قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں ۔


المستفتی۔محمد سعید الرحمٰن اشرفی دیناجپوری ممبئی۔

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ

کفار سے زمین لینا اور اس سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے اگر چہ شرط کے ساتھ ہو، اگر چہ وہ سود ہی کہہ کر دیں مگر زیادتی سود سمجھ کر نہ لے بلکہ ایک مال مباح سمجھ کر لے۔ اس لیے کہ مسلمان اور غیر مسلم کے مابین سود کا تحقق نہیں۔حدیث پاک میں ہے : قوله عليه السلام لاربابين المسلم والحربي في دارالحرب۔ ترجمہ: مسلمان اور حربی کے درمیان دارالحرب میں کوئی سود نہیں (ہدایہ ج2 باب الربا صفحہ 86) فتح القدیر میں ہے : ولأبي حنيفة ومحمد ماروي مكحول عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ولاربابين المسلم والحربي في دارالحرب ذكره محمد بن الحسن ولأن مال اهل الحرب في دارهم مباح بالاباحةالاصلية والمسلم المستأمن إنما منع من أخذه لعقدالامان حتى لا يلزم الغدر فاذابذلك الحربي ماله برضاه زال المعني الذي حظر لأجله.( ج7 باب الربا صفحہ 39)۔

بحر الرائق میں ہے : الحديث لا ربا بين المسلم والحربي في دارالحرب ولأن مالهم مباح يعقد الامان منهم لم يصرمعصوما الا انه التزم أن لا يعترض لهم بغدر.( ج 6 باب الربا صفحہ 226) درمختار مع ردالمحتار میں ہے : و لا بين حربي ومسلم مستأمن ولو بعقد فاسد أو قمار ثمة لان ماله ثمة فيحل برضاه مطلقاً بلا غدر لان ماله غير معصوم فلا ربا إتفاقا ولم يهاجرا لا يستحق الربا بينهما أيضا. ( ملخصا ج7 باب الربا صفحہ 423)۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں : یہاں کے کفار سے ایسی شرط جائز ہے لانھم غیر اھل ذمة ولامستامن (کیونکہ نہ تو وہ ذمی ہیں نہ مستامن) مگر یہ زیادت جو ملے اسے سود سمجھ کر نہ لے بلکہ مال مباح۔(۲) یہاں کے کفار سے جس طور ہو جائز ہے۔لان مالھم مباح فی دارھم فبای طریق اخذہ المسلم اخذ مالا مباحا إذا لم یکن فیه غدر کما فی الھدایۃ و غيرها. ترجمہ : اس لئے کہ کفا رکا مال دار الحرب میں مباح ہے لہٰذا جس طریقے سے بھی مسلمان نے اس کو لیا تو اس نے مباح مال لیا بشرطیکہ دھوکا بازی نہ ہو، جیسا کہ ہدایہ وغیرہ میں ہے۔ ( جلد 17 صفحہ 350)۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔۔۔۔


(ا)

اس طرح کا سود بندھک مسلمان کے ساتھ دینا لینا جائز نہیں ہےکیونکہ زمین سے قرض ہونے کی بنیاد پر اس سے کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنا مطلقاً سود و حرام ہے۔ کنز العمال میں ہے : كل قرض جر منفعة فهو ربا" ترجمہ : ہر وہ قرض جس کی وجہ سے نفع حاصل کیا جائے وہ سود ہے ( ج 6فصل فی لواحق کتاب الدین صفحہ 238)۔

جواز کی صورت یہ ہےکہ مثلاً بکر اس صورت کو اختیار کرے جس سے قرض لے یا دے اسے کھیت کرایہ پر دے یعنی اگر مناسب کرایہ سالانہ پانچ ہزار روپے بیگھا ہو تو چھ سو یا آٹھ سوروپے دے ڈالے اس سے قرض دینے والے کو بھی فائدہ ہوگا کہ پانچ ہزار کا کھیت اسے سات سو میں مل جائے گا اور رقم زر قرض سے مجرا ہوتی رہے گی جب کل رقم ادا ہوجائگی تو کھیت واپس میں مل جائے گا ۔

بہار شریعت جلد سوم میں ہے : بعض لوگ قرض لے کر مکان یا کھیت رہن رکھ دیتے ہیں اور مکان یا کھیت کی اجرت مقرر کر دیتے ہیں مثلاً مکان کا کرایہ پانچ روپے ماہوار یا کھیت کا پٹہ ( کھیت کاکرایہ )دس روپے سال ہونا چاہے اور طے یہ پاتا ہے کہ یہ رقم زر قرض سے مجرا ہوتی رہے گی (قرض سے کٹوتی ہوتی رہے گی )جب کل رقم ادا ہوجائگی اس وقت مکان یا کھیت وآپس ہو جائے گا اس صورت میں بظاہر کو ئی قباحت نہیں معلوم ہوتی ہے اگر چہ کرایہ یا پٹہ واجبی اجرت سے کم طے پا یا ہو یہ صورت اجارہ میں داخل ہے یعنی اتنے زمانے کے لیے مکان یا کھیت اجرت پر دیا اور زر اجرت پیشگی لے لیا ( حصہ 17کتاب الرہن صفحہ طرح704)۔


واللہ تعالیٰ اعلم

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی،خادم سعدی دار الافتاء، متوطن : نل باڑی، سوناپور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال، الہند۔

*22/ رجب المرجب 1442ھ* 

*7/ مارچ2021ء*

 *_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_ 

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad