تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

Famili wale sab ek jagah khate pite ho to zakat kis par wajib hai_____فمیلی والے سب ایک جگہ کھاتے پیتے ہو تو زکوٰۃ کس پر واجب ہے؟؟

0

Famili wale sab ek jagah khate pite ho to zakat kis par wajib hai

 
‭‮‭‮ فمیلی والے سب ایک جگہ کھاتے پیتے ہو تو زکوٰۃ کس پر واجب ہے؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین
مسئلہ ذیل کے بارے میں ۔۔۔
1
 کہ زید او ر(بکر) دونوں بھائی اپنے  ماں (ہندہ) کے ساتھ رہتے ہیں والد کا انتقال ہوگیا ہے  دونوں بھائی کماتے  بھی ہیں اور دونوں کے پیسوں سے خرچ بھی کرتے ہیں اور بچا ہوا رقم اپنی ماں کے پاس جمع رکھتے ہیں اور وہیں سے ضرورت کے وقت  خرچ  کے لیئے لیتے بھی  ہیں ۔۔ اور دونوں بالغ بھی ہے اب سوال یہ ہے کہ باقی بچا ھوا  پیسوں کا زکوۃ کون نکالے۔۔ زید ؟  ۔ ۔ یا بکر ؟ ۔ ۔  یا ان دونوں کی۔۔ ماں ہندہ ؟
2
 زید اپنے بھائی( بکر) اور ماں (ہندہ )سے چھپا کر کچھ دنوں میں دو لاکھ روپیہ (عمر) کے پاس جمع کیا  عمر  کوئی رشتہ دار یا دوست ہےزید کا ایسا کرنا یعنی اپنے بھائی (بکر )اور ماں ( ہندہ) سے چھپا کر روپیہ  جمع کرنا کیسا ہے کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟؟؟

اور کیا (زید) کو دو لاکھ روپیے کا زکوۃ  نکالنا پڑے گا ؟؟؟ جس کا مالک زید تو خود ہے  لیکن ]زید)  کے پاس نہیں ہے ۔۔

3
 ایک آدمی  کے پاس اپنے مکان کے علاوہ اور ایک روم بھی ہے جس کی قیمت بیس لاکھ روپیہ ہے جو 15000 پندرہ ہزار روپیہ مہینہ کا کرایہ پر دیا ہوا ہے  اور کرائے کے روپیہ سے گھر کا خرچہ چلتا ہے ۔
تو کیا  20 لاکھ روپئے کا زکوۃ  نکالنا پڑے گا اگر نکالنا پڑے تو اتنا روپیہ کہاں سے لائے گا ۔۔؟
 ایک آدمی  کے پاس 50 تولہ تھا اس آدمی نے اس سونے کا ہیرا خرید لیا تاکہ زکوة نہ نکالنا پڑیں تو کیا اس ہیرے کا زکوة  نکالنا پڑے گا ۔۔۔؟

ایم زاہد رضا اے پروانہ رامگنج  الواباری بنگال

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالی
صورت مذکورہ میں جب تمام مالوں کا مالک والدہ صاحبہ ہے اور اولاد والدہ صاحبہ کے عیال میں ہے یعنی ایک ہی فمیلی میں کھاتے پیتے رہتے ہیں اس صورت میں زکوٰۃ والدہ صاحبہ پر واجب ہے کیونکہ وہ مالک ہے اور اس مال کی وجہ سے زید اور بکر پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ہاں اگر زید اور بکر کے پاس اپنا ذاتی مال ہو اور شرائط زکوٰۃ پائے جائے تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگر والدہ صاحبہ مال تقسیم کر کے مالک بنادیں اور ہر ایک کا حصہ بقدر نصاب ہے تو ہر ایک پر زکوٰۃ واجب ہے اگر بقدر نصاب نہ ہو اور دوسرا مال بھی نہ ہو جو نصاب تک پہنچ جائے تو واجب نہیں ۔کنز الدقائق میں ہے : وشرط وجوبها العقل والبلوغ والإسلام والحرية وملك النصاب حولي فارغ عن الدين وحاجته الاصلية نام و لو تقديرا ۔(کتاب الزکاۃ صفحہ 56)۔
(ا) 
اگر زید نے والدہ اور بھائی سے وعدہ کیا تھاکہ جو کچھ میں کماؤں گا سب آپ کے پاس جمع کروں گا پھر اس نے بغیر بتائے یہ فعل کیا تو زید گناہ گار ہوا اگر وعدہ نہیں کیا تھا تو گناہ گار نہیں ہوگا پھر بھی ایسا نہ کرے۔قرآن مجید میں ہے : واوفوا بالعهد أن العهد كان مسؤلا۔ ترجمہ: اور عہد پورا کرو بےشک عہد سے سوال ہوتا ہے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ سید محمد نعیم الدین صاحب مراد آبادی فرماتے ہیں اللہ کا بھی بندوں کا بھی۔(پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل آیت 34)۔
زید نے جو دو لاکھ روپے بطور قرض دیا ہے اور اس پر سال بھی گزر گیا ہے تو اس رقم پر زکوۃ واجب ہوگی اس رقم کی ادائیگی اس وقت لازم ہے جبکہ وہ مل جائے جو قرض دیا ہے وہ اپنے ہی قبضے میں مانے جائیں گے اور سال بسال اس کی زکوۃ واجب ہوتی رہے گی۔رد المحتار میں ہے : اذا امسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي وان كان قصده الانفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه الي حوائجه الأصلية وقت حولان الحول بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها۔(ج 3مطلب فی زکاۃ ثمن المبیع وفاء صفحہ 179)۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : جو روپیہ قرض میں پھیلا ہے اس کی بھی زکوٰۃ لازم ہے مگر جب بقدر نصاب یا خمس نصاب وصول ہوا اس وقت ادا واجب ہوگی جتنے برس گزرے ہوں سب کا حساب لگا کر۔ ( جلد 10 صفحہ 167)۔
(ب)
 زکاۃ صرف تین چیزوں پر واجب ہوتی ہے (1 ) ثمن پرخواہ وہ خلقی ہو یعنی سونا چاندی یا ثمن اصطلاحی یعنی  روپیہ پیسہ (2) مال تجارت (3)چرائ کے جانوروں کے علاوہ باقی کسی چیز پر زکوٰۃ واجب نہیں۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : وكذا كتب العلم أن من أهله وآلات المحترفين ۔ ترجمہ: اور علمی کتابوں پر اگر وہ اہل علم سے ہےاور پیشہ والوں کے آلات پر زکوٰۃ نہیں ( کتاب الزکاۃ صفحہ 172) ۔فتاویٰ رضویہ میں ہے: زکاۃ صرف تین چیزوں پر ہے وہ کیسے ہی ہو پہننے کے ہو یا برتنے کے یا رکھنے کے سکہ ہو یا ورق دوسرے چرائ پر چھوٹے جانور تیسرے تجارت کا مال باقی کسی پر نہیں (جلد 10 صفحہ 141)۔
لہذا زکوۃ صرف روم کی آمدنی کرایہ پر واجب ہےجبکہ دیگر شرائط پائے جائے قیمت پرنہیں کیونکہ قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں البتہ جس روم کو بیچنے کی نیت سے خریدا گیاان کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہےاگر ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی مقدار تک پہنچ گیا ہو اور اس پر سال بھی گزرگیا ہو۔
(ج) 
پچاس تولہ سونا کا ہیرا خرید لینا تاکہ زکوة نہ نکالنا پڑیں ایسا فعل کرنا جائز نہیں۔فتاویٰ رضویہ میں ہے: ہمارے کتب مذہب نے اس مسئلہ میں امام ابویُوسف اور امام محمد رحہما ﷲتعالیٰ کا اختلاف نقل کیا اورصرف لکھ دیا کہ فتوٰی امام محمد کے قول پر ہے کہ ایسا فعل جائز نہیں۔ تنویر الابصار و درمختار ودرر وغرروجوہرہ وغیرہا میں ہے:واللفظ للاولین(تکرہ الحیلۃ لاسقاط الشفعۃ بعد ثبوتھا وفاقا) اسی میں ہے: تو حاصل یہ ہوگا کہ اس حیلہ کے مکروہ و نا پسند ہونے پر ہمارے ائمہ کا اجماع ہے، خلاف اس میں ہے کہ امام ابو یوسف مکروہِ تنزیہی فرماتے ہیں اور امام اعظم و امام محمد مکروہِ تحریمی۔ اور فقیر نے بچشمِ خود امام ابی یوسف رضی ﷲ عنہ کی متواتر کتاب مستطاب الخراج میں یہ عبارت شریفہ مطالعہ کی۔ امام ابو یوسف کے نزدیک مکروہ تنزیہی کا مطلب یہ ہے کہ سال تمام ہونے سے قبل ایسا کیا ہو اور وہ ضرورت و حاجت کے وقت کیا ہو ورنہ ان کے نزدیک بھی یہ حکم ہے۔ اسی میں ہے: اور حق یہ ہے کہ امامِ ممدوح کا یہ قول بھی اس لیے نہیں کہ لوگ اسے دستاویز بنا کر زکوٰۃ سے بچیں بلکہ وہ وقتِ ضرورت و حاجت پر محمول ہے، مثلاًکسی پر حج فرض ہوگیا تھا، مال چوری ہوگیا، مصارفِ حج ونفقۃ عیالی کے لیے ہزار درہم کی ضرورت ہے اس سے کم میں نہ ہوگا محنت و کوشش سے جمع کئے، آج قافلہ جائے کو ہے کل سالِ زکوٰۃ تمام ہوگا، اگر پچیس درہم نکل جائیں گے مصارف میں کمی پڑے گی، یہ ایسا حیلہ کرے کہ حجِ فرض سے محروم نہ رہے، یا کوئی شخص اپنے حال کو جانتا ہے کہ زکوٰۃ اُس سے ہرگز ہر گز قطعا نہ دی جائے گی، اُس کا نفس ایسا غالب ہے کہ کسی طرح اس فرض کی ادا پر اصلاً قدرت نہ دے گا، یہ اس خیال سے ایسا کرے کہ بعد فرضیّت ترک ادا وارتکابِ گناہ سے بچوں تو ازقبیل من ابتلی ببلتیین اختارا ھو نھما (جو شخص دو مشکلات میں گِھر جائے ان میں سے آسان کو اختیار کرے۔)ہوگا۔ سراجیہ میں ہے: اذا ارادان یحتال لامتناع وجوب الزکوٰۃ لما انه خاف ان لا یؤدی فیقع فی المأثم فا لسبیل ان یھب النصاب قبل تمام الحول من یثق به ویسلمه الیه ثم یستوھبه. جب کوئی امتناعِ وجوب زکوٰۃ کے لیے حیلہ کرتا ہے کہ وُہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ اگر اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی تو گناہگار ہوگا، تو اس کے لیے راستہ یہ ہے کہ سال گزرنے سے پہلے نصاب کسی باعتماد آدمی کے حوالے کردے پھر اس سے بطور ہبہ واپس لے لے۔(مخلصا جلد 10 صفحہ 196/189

واللہ تعالیٰ اعلم
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
 _کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ_ 
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی،خادم سعدی دار الافتاء، متوطن : نل باڑی، سوناپور ہاٹ، اتردیناجپور ،بنگال
*24/ رمضان المبارک 1441ھ*
*18/ اپریل 2020 ء*
*_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad