تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

سسر بہو کے ساتھ زنا کیا ہو،بیٹے کو معلوم نہ ہو ایسے میاں بیوی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

0

 

سسر بہو کے ساتھ زنا کیا ہو،بیٹے کو معلوم نہ ہو ایسے میاں بیوی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

رقم الفتوی : 690

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضور کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ سسر نے بہو کے ساتھ رضامندی سے زنا کیا، لیکن شوہر کو معلوم نہیں ہے،کیا ایسی صورت میں اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے، اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں اور جلد ہی نظر کرم فرمائیں عین نوازش ہوگی فقط و سلام

المستفتی : محمد ارمان رضا 

.................................................

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ : صورت مذکورہ میں سسر کا بہو کے ساتھ مستی یا تلذذ حاصل کرنے سے بیوی اپنے شوہر پر اس وقت تک حرام نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اس کا شوہر اور ان دونوں ( باپ یا بیوی) میں سے کسی ایک کے بات کی تصدیق نہ کر لے کیونکہ کتب فقہ میں یہ تصریح ہے کہ صرف باپ اور بیوی کے اقرار کر لینے سے بیوی حرام نہیں ہوتی جب تک کہ بیٹا اس پر تصدیق نہ کر لے اگر بیٹا تصدیق نہ کرے تو بیوی اس پر حرام بھی نہیں ہو گی۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : اس فعل سے عورت اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے مگر نکاح زائل نہیں ہوتا۔ نہ عورت دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے جب تک شوہر متارکہ نہ کرے، ،مثلاً کہے میں نے تجھے چھوڑا، اور عدت گزرے اس کے بعد نکاح دوسرے سے کرسکے گی،درمختار میں ہے: بحرمہ المصاہرۃ لایرتفع النکاح حتی لایحل لہا التزوج باخر الا بعد المتارکۃ وانقضاء العدۃ۔حرمت مصاہرۃ سے نکاح ختم نہیں ہوتا اسی لیے دوسرے شخص سے اس عورت کا نکاح اس وقت تک جائز نہیں جب تک متارکہ اور اس کی عدت پوری نہ ہوجائے۔عورت کا بیان کوئی چیز نہیں جب تک شوہر اس کی تصدیق نہ کرے۔درمختار میں ہے: لان الحرمۃ لیست الیھا قالو اوبہ یفتی فی جمیع الوجوہ بزازیہ۔کیونکہ حرمت کا فیصلہ عورت کے ہاتھ نہیں ہے اور فقہاء کرام نے فرمایا تمام صورتوں میں اسی پر فتوٰی ہے۔ بزازیہ۔اور اگر پدر شوہر بھی اقرار کرے جب بھی شوہر پر حجت نہیں۔لانہ یرید ازالۃ ملک ثابت بشھادۃ واحد لاسیما وھی علی نفسہ وشہادۃ المرء علٰی فعل نفسہ لاتقبل کما نصوا علیہ قاطبۃ۔کیونکہ ثابت شدہ ملکیت کو وہ ایک گواہی سے ختم کرنا چاہتا ہے خصوصا جبکہ اس ایک گواہ کی شہادت اپنے فعل پر ہو جبکہ اپنے فعل پر کسی شخص کی شہادت مقبول نہیں، جیساکہ اس پر تمام فقہاء کرام نے تصریح کی ہے۔ہاں اگر شوہر کے قلب میں اس کا صدق واقع ہو تواس پر واجب ہے کہ عورت کو اپنے اوپر حرام جانے اور متارکہ کردے،بزازیہ پھر ہندیہ میں ہے:فان وقع عندہ صدقہ وجب قبولہ۔تو اگر اس کے دل میں اس کا صدق واقع ہو تو اسے قبول کرنا اس پر واجب ہے۔ یا دو شاہد عادل کی گواہی سے یہ امر ثابت ہو اگرچہ اسی قدر کہ اس کے باپ نے اسے بشہوت مس کیا یا بشہوت بوسہ لیا کہ حرمت کو اسی قدر بس ہے، تنویر الابصار میں ہے: تقبل الشہادۃ علی اللمس والتقبیل عن شہوۃ فی المختار۔شہوت کے ساتھ چھونے اور بوسہ لینے پر شہادت قبول کی جائے گی مختار قول میں۔( جلد 11/ صفحہ 454/455)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
20/ جمادی الاولی 1445ھ

4/ دسمبر 2023ء  

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad