*🔹نبی کریم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی اذان دیئے یا نہیں🔹*
Asslamu alaikum
Masala ye hai k kisi ne mujhse pucha hai
Kiya huzur ne apni zahiri hayat me kabhi azan padhi he?
Aur Awam me mashhur he ye bat
Ow konsa kam he jo huzur ne nahi kiya ho or ummati kar rahi he
To jawab diya jata he azan
Aap hawale muzaiyyan karen nazish hogi
🌹 Saim raza qadri,Islam pur west bengal🌹
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالی
بنفسِ نفیس ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت سفر میں اذان دی ہے
فتاویٰ رضویہ میں ہے : قال فی الدرمختار وفی الضیاء انه علیه الصّلاۃ والسّلام اذن فی سفربنفسه واقام وصلی الظھر وقد حققناہ فی الخزائن . قال فی ردالمحتار،حیث قال بعد ماھنا ھذا وفی شرح البخاری لابن حجر ومما یکثر السؤال عنه، ھل باشر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الاذان بنفسه وقداخرج الترمذی،انه صلی اللّٰه تعالٰی علیه وسلم اذن فی سفر وصلی باصحابه وجزم به النووی وقواہ، ولکن وجد فی مسند احمد من ھذا الوجه فامر بلالاً فاذن فعلم ان فی روایة الترمذی اختصارا وان معنی قوله اذن امر بلالاً کمایقال اعطی الخلیفة العالم الفلانی کذا وانما باشر العطاء غیرہ . ورأیتنی کتبت فیماعلقت علی ردالمحتارما نصه اقول لکن سیأتی صفة الصلاۃ عند ذکر التشھد عن تحفة الامام ابن حجر المکی انه صلی اللّٰه تعالٰی علیه وسلّم اذن مرّۃ فی سفر فقال فی تشھدہ ''اشھد انّی رسول اللّٰه'' وقد اشارابن حجر الی صحته، وھذا نص مفسر لایقبل التأویل، وبه یتقوٰی تقویۃ الامام النووی رحمہ اللّٰہ تعالٰی ماکتبت.ترجمہ : درمختار میں فرمایا اور الضیاء میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سفرمیں بنفسِ نفیس اذان دی، تکبیر کہی اور ظہر کی نماز پڑھائی اور ہم نے خزائن میں اس بارے میں تحقیق کی ہے ۔ ردالمحتار میں کہا وہاں اس گفتگو کے بعد یہ فرمایا کہ ابنِ حجرکی فتح الباری شرح البخاری میں ہے کہ اکثر طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود اذان دی ہے؟اور ترمذی نے روایت کیا ہے کہ آپ نے دورانِ سفر خود اذان دی اور صحابہ کو نماز پڑھائی،امام نووی نے اس پر جزم کرتے ہوئے اسے قوی قرار دیا، لیکن اسی طریق سے مسند احمد میں ہے کہ آپ نے بلال کو حکم دیاتو انہوں نے اذان کہی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت ترمذی میں اختصار ہے اور ان کے قول اذّن کا معنٰی یہ ہے کہ آپ نے بلال کو اذان کا حکم دیا،جیسا کہ محاورۃً کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے فلاں عالم کو یہ عطیہ دیاحالانکہ وہ خود عطا نہیں کرتا بلکہ عطا کرنے والا کوئی غیر ہوتا ہے ۔مجھے اس بارے میں مزید جو سمجھ آئی اسے میں نے اپنے حاشیہ ردالمحتار میں تحریر کیاہے اور اسکے الفاظ یہ ہیں اقول: عنقریب صفاتِ نماز کے تحت ذکرِ تشہدمیں تحفہ امام ابن حجر مکّی سے آرہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سفر میں ایک دفعہ اذان دی تھی اور کلماتِ شہادت یوں کہے اشہد انّی رسول ﷲ(میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں)اور ابنِ حجر نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ نص مفسر ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سے امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی کے قول کی اور تقویت ملتی ہے اھ(میری تحریر ختم ہوئی)۔ ( جلد 5 صفحہ 374)
لہٰذا اس طرح کہنا غلط ہے اور آئندہ کوئی بات جانے بغیر نہ کہیں۔
_واللہ تعالیٰ اعلم
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
_کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ_
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی خادم سعدی دار الافتاء،متوطن : نل باڑی، سوناپور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال الہند،
*21/ شعبان المعظم 1441ھ*
*16/ اپریل 2020ء*
*_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰


روزے کی حالت میں بی بی سےہمبستری کرناکیساہےجواب عنایت کری
ReplyDelete