تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

sure baqra aur tilawate quran par ujtar lena jaiz hai ya nahi.......سورہ بقرہ اور تلاوت قرآن پر اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟؟؟؟؟

0

sure baqra aur tilawate quran par ujtar lena jaiz hai ya nahi

 

 سورہ بقرہ اور تلاوت قرآن پر اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟؟؟؟؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسٔلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے ایک حافظ صاحب سے کہا کہ حافظ صاحب میرے گھر میں کچھ پریشانیاں چل رہی ہے آپ میرے گھر میں 40 دن سورۂ بقرہ پڑھ دیجئے ۔۔۔ زید کے کہنے پر حافظ صاحب نے پڑھنا شروع کیا اور اللہ کے کرم سے زید کی پریشانی دور ہو گیٔ اور حافظ صاحب کا بھی چالیس دن پورا ہوگیا
اب زید نے کہاکہ یہ میری طرف سے کچھ ہدیہ قبول فرما لیجیۓ۔
حافظ صاحب نے وہ ہدیہ قبول فرما لیا ۔۔۔ جب کہ زید اور حافظ صاحب کے بیچ پیسے یا ہدیہ لینے اور دینے کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی سورۂ بقرہ پڑھوانے اور پڑھنے سے پہلے ،تو اب جو زید نے ہدیہ دیا اس ہدیہ کا دینا اور حافظ صاحب کا ہدیہ قبول کرنا کیسا ؟ اس پیسے یا ہدیہ پر شریعت کا کیا حکم ہوگا۔۔۔۔
برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں
المستفتی : طالب علم محمد حسین، دارجلنگ، بنگال
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ
اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا مطلقاً حرام ہے، سوائے قرآن عظیم کی تعلیم، دیگر دینی علوم، اذان اور امامت پر اجرت لینا جائز ہے جیسا کہ متاخرین ائمہ نے موجودہ زمانہ میں شعائر دین و ایمان کی حفاظت کے پیش نظر فتوٰی دیا ہے۔ردالمحتار میں ہے : ولا نصح الإجارة لأجل الطاعات ولا في القراءة المجردة فإنه لا ضرورة فيها فالحاصل أن ما شاع في زماننا من القراءة الاجزاء بالأجرة لا يجوز لان فيه الأمر بالقراءة واعطاء الثواب للأمر والقراءة لأجل المال فاذا لم يكن للقارئ ثواب بعدم النية الصحية فاين يصل الثواب الي المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة الي جمع الدنيا۔ ( ملخصا ج 9 کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ صفحہ 76/77) فتاویٰ رضویہ میں ہے :  اصل یہ ہے کہ طاعت وعبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیم قرآن عظیم وعلوم دین و اذان وامامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کو جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری ومجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا) مطلقا حرام ہے، اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب وذکر شریف میلاد پاک حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ضرورت منجملہ عبادات وطاعت ہیں تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام ومحذور ۔اور اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتا ہے عرفا شرط معروف ومعہود سے بھی ہوجاتا ہے مثلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا وہ سمجھ رہےہیں کہ کچھ ملے گا انھوں نے اس طور پر پڑھا انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا اجارہ ہو گیا اور اب دو وجہ سے حرام ہوا ایک طاعات پر اجارہ یہ خود حرام ہے دوسرے اجرت اگر عرف معین نہیں تو اس کی جھالت سے اجارہ فاسد یہ دوسرا حرام ہے۔پس اگر قرار داد کچھ نہ ہو، وہاں لین دین معہود ہوتا ہو تو بعد کو بطور صلہ وحسن سلوک کچھ دے دینا جائز بلکہ حسن ہے، هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ" وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ " ترجمہ : احسان کی جزاء صرف احسان ہے۔ اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتاہے۔مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے تو صورت ثانیہ میں داخل ہو کر حرام محض ہے،اب اس کے حلال ہونے کی دو طریقے ہیں(1) اول یہ کہ قبل قرآت پڑھنے والے صراحتاً کہہ دیں کہ ہم کچھ نہ لیں گے پڑھوانے والے صاف انکار کر دیں کہ تمہیں کچھ نہ دیا جائے گا اس شرط کے بعد پڑھیں اور پڑھوانے والے بطور صلہ جو چاہیں دے دیں یہ لینا دینا حلال ہوگا ( 2) دوم پڑھوانے والے پڑھنے والوں سے بہ تعیین وقت واجرت ان سے مطلق کار خدمت پر پڑھنے والوں کو اجارے میں لے لیں مثلا یہ ان سے کہیں ہم نے کل صبح سات بجے سے بارہ بجے تک بعوض ایک روپیہ کے اپنے کام کاج کے لئے اجارہ میں لیا وہ کہیں ہم نے قبول کیا اب یہ پڑھنے والے اتنے گھنٹوں کےلئے ان کے نوکر ہو گئے وہ جو کام چاہیں لیں اس اجارہ کے بعد وہ ان سے کہیں اتنے پارے کلام اللہ شریف کے پڑھ کر ثواب فلاں کو بخش دو یامجلس میلاد مبارک پڑھ دو یہ جائز ہوگا اور لینا دینا حلال۔ (ملخصا جلد 19 صفحہ 488/486
لہذا صورت مسئولہ میں تلاوتِ قرآن اور سورہ بقرہ وغیرہ کی اجرت لینا اور دینا حرام ہے اور اگر وہاں کا عرف و رواج معروف ہو مثلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملےگا۔ انھوں نے اس طور پر پڑھا، انھوں نے اس نیت سے پڑھوایا، اجارہ ہوگیا، اور اب دو وجہ سے حرام ہوا، ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام، دوسرے اجرت اگر عرفا معین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد، یہ دوسرا حرام۔البتہ اگر وہاں کا عرف و رواج  نہ لینے کا ہو نہ دینے کا ہو تو بطور صلہ وحسن سلوک دے دینا اور لے لینا جائز ہے۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت علامہ و مولانا مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی،خادم سعدی دار الافتاء، متوطن: نل باڑی، سوناپور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
*9/ محرم الحرام 1443ھ*
*18/ اگست2021ء*
*_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad