کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ امام صاحب نماز پڑھا رہے تھے قرآت میں غلطی ہوئی مقتدی نے لقمہ دیا امام نے لقمہ لیکر قرآت درست کر لی
اخیر میں سجدہ سہو بھی کر لیا
نماز ہوگئی یا دوبارہ جماعت قائم کرنا ہونا گا
فقط والسلام
عبید رضا لکھیم پوری
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : صورت مسئولہ میں امام اور مقتدیوں کی نماز ہوگی اور جو مقتدی اس سجدہ سہو کرنے کے بعد شامل ہوئے اس کی نماز نہیں ہوئی جبکہ حقیقتاً سجدہ سہو واقع نہ ہوا ہو۔فتاویٰ قاضی خان میں ہے: إذا ظن الأمام أن عليه سهوا فسجد للسهو و تابعه المسبوق في ذلك ثم علم أن الإمام لم يكن عليه سهو الاشهر أن صلاته تفسد وان لم يعلم أنه لم يكن على الامام سهو لم تفسد صلاة المسبوق۔ترجمہ: جب امام کو یہ گمان ہو کہ اس پر سجدہ سہو ہے اور اس نے سجدہ سہو کیا اور مسبوق نے بھی اس کی اتباع میں سجدہ کیا پھر اس نے جانا کہ امام پر سجدہ سہو نہ تھا تو مشہور یہی ہے کہ اس کی نماز فاسد ہو گئی اور اگر اسے اس بات کا علم نہیں کہ امام پر سجدہ سہو نہیں تھا تو مسبوق کی نماز فاسد نہ ہو گی۔(ج1 فصل فی المسبوق صفحہ 48) طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے: وهو المختار كذا في المحيط "ترجمہ: یہی مختار ہے جیساکہ محیط میں ہے۔ (باب سجود السہو صفحہ 253) فتاویٰ رضویہ میں ہے: امام ومقتدیان سابق کی نماز ہوگئی جو مقتدی اس سجدہ سہو میں جانے کے بعد ملے ان کی نماز نہیں ہوئی کہ جب واقع میں سجدہ سہو نہ تھا دہنا سلام کہ امام نے پھیرا ختم نماز کا موجب ہوا یہ سجدہ بلا سبب لغو تھا تو اس سے تحریمہ نماز کی طرف عود نہ ہوا اور مقتدیان مابعد کو کسی جزء امام میں شرکت امام نہ ملی لہذا ان کی نماز نہ ہوئی ولہذا اگر سجدہ سہو میں مسبوق اتباع امام کرے بعد کو معلوم ہو کہ یہ سجدہ بے سبب تھا اس کی نماز فاسد ہو جائے گی کہ ظاہر ہوا کہ محل انفراد میں اقتدا کیا تھا، ہاں اگر معلوم نہ ہوا تو اس کے لیے حکم فساد نہیں کہ وہ حال امام کی صلاح و صواب پر حمل کرنا ہی چاہئے۔(جلد 8 صفحہ 185)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
_کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ_
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سوناپور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند
*10/ ذی القعدہ 1442ھ*
*21/ جون 2021ء*
*_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
