بندھن لون لینا جائز ہے یا نہیں؟؟؟
السلام علیکم ورحمۃاللہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسلئے ذیل کے بارے میں کہ زید ابن مکتوب نے ایک لون لیا ہے جس کو بندھن لون کہا جاتا ہے لوگ چالیس ہزار پچاس ہزار روپے تک لیتے ہیں اس میں سال دو سال کا ٹائم دیا جاتا ہے لوگ ہفتہ در ہفتہ رفتہ رفتہ ان رقوم ادا کر تے ہیں اور اصل رقم سے زیادہ پندرہ بیس پچیس ہزار روپے بطورِ سود دینا پڑتا ہے جواب طلبِ امر یہ ہے کہ ایسا لون درست ہے یا نہیں فتویٰ کی شکل میں شریعت مطہرہ کے مطابق روشناس فرمائیں
المستفی : احقر مجاہد رضا نعیمی اشرفی مسکون چیتل گھٹہ سونا پور اتر دیناج پور بنگال
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ
بینک سے پیسے لیکر اس کو زیادہ دینا ناجائز و حرام ہے خواہ بزنس کے لئے ہو یا اور کسی کام کے لئے ہو مثلاً چالیس،پچاس ہزار لیے کر اسی،نوے ہزار دینا۔جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے مگر محتاج شخص کو سود پر قرض لینا جائز ہے جبکہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو ورنہ نہیں ہاں گورنمنٹ کے بینک سے زیادہ پیسہ دینے کی شرط پر قرض لینا یہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ بینک کو جو زائد رقم بنام سود دینی پڑتی ہے اس زائد رقم کے برابر یا اس سے زیادہ نفع کا حصول یقینی طور معلوم ہو جب تو زیادہ پیسہ دینے کی شرط پر قرض لینا جائز ہے۔ تفصیل کے لئے حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین صاحب قبلہ رضوی کی تصنیف لطیف ” جدید بینک کاری اور اسلام“ کا مطالعہ کریں ۔ قرآن مجید میں ہے : " اَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا" ترجمہ: اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا اور ربا کو حرام۔( پارہ 2 سورہ بقرہ آیت 275)۔صحیح مسلم میں ہے :" لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم اكل الربٰو و مؤكله وكاتبه و شاهده وقال هم سواء"۔ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےلعنت فرمائی سود کھانے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والوں پر اور فرمایا وہ سب برابر ہیں( ج2 باب الربا صفحہ 27) فتاویٰ رضویہ میں ہے : سود جس طرح لینا حرام ہے دینا بھی حرام ہے( جلد/ 17 صفحہ 298) اسی میں ہے : مگر اگر شریعت مطہرہ کا قاعدہ مقرر ہے کہ ”الضرورات تبيح المحظورات” ( ضرورتیں ممنوعات کو مباح کر دیتی ہیں) اسی لئے علماء فرماتے ہیں محتاج کو سودی قرض لینا جائز ہے ۔ ”في الاشباہ والنظائر وفي القينة والبغية يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح، قال في الغمز وذلك نحو أن يقترض عشرة دنانير مثلا ويجعل لربها شيئاً معلوما في كل يوم ربحا"۔ ترجمہ: الاشباہ والنظائر، قینیہ اور بغیہ میں کہ محتاج کے لئے سود پر قرض لینا جائز ہے ، غمز میں فرمایا اس کی صورت یہ ہے کہ مثلا وہ دس دینار قرض لے اور قرض دہندہ کے لئے یومیہ کچھ نفع مقرر کرے۔ اقول محتاج کے یہ معنی جو واقعی حقیقی ضرورت قابل قبول شرع رکھتا ہو کہ نہ اس کے بغیر چارہ ہو نہ کسی طرح بے سودی روپیہ ملنےکا یارا، نہ ہرگز جائز نہ ہوگا جیسے لوگوں میں رائج ہے کہ اولاد کی شادی کرنی چاہی سو روپے پاس ہیں ہزار روپے لگانے کو جی چاہا نو سو سودی نکلوائے یا مکان رہنے کو موجود ہے دل پکے محل کو ہوا سودی قرض لے کر بنایا، یا سود و سو کی تجارت کرتے ہیں قوت اہل و عیال بقدر کفایت ملتا ہے نفس نے بڑا سود اگر بننا چاہا پانچ چھ سو سودی نکلوا کر لگا دئے یا گھر میں زیور وغیرہ موجود ہے جیسے بیچ کر روپیہ حاصل کر سکتے ہیں نہ بیچا بلکہ سودی قرض لیاو علیٰ ہذا القیاس صدہا صورتیں ہیں یہ ضرورتیں نہیں تو ان میں حکم جواز نہیں ہو سکتا اگرچہ یہ لوگ اپنے زعم میں ضرورت سمجھیں ولہٰذا اہل و عیال کے لئے سودی قرض لینے کی اجازت اسی وقت ہو سکتی ہے جب اس کے بغیر کوئی طریقہ بسر اوقات کا نہ ہو، نہ کوئی پیشہ جانتا ہو، نہ نوکری ملتی ہے جس کے ذریعے سے دال روٹی موٹا کپڑا محتاج آدمی کی بسر کے لائق مل سکے ورنہ اس قدر پا سکتا ہے تو سودی روپیہ سے تجارت پھر وہی تونگری کی ہوس ہو گی نہ ضرورت قوت، رہا ادائے قرض کی نیت سے سودی قرض لینا، اگر جانتا ہے کہ اب ادا نہ ہوا تو قرض خواہ قید کرائے گا جس کے باعث بال بچوں کو نفقہ نہ پہنچ سکے گا اور ذلت وخواری علاوہ، اور فی الحال اس کے سوا کوئی شکل ادا نہیں تو رخصت دی جائے گی کہ ضرورت متحقق ہولی حفظ نفس و تحصیل قوت کی ضرورت تو خود ظاہر، اور ذلت و مطعونی سے بچنا بھی ایسا امر ہے جسے شرع نے بہت مہم سمجھا اور اس کے لئے بعض محظورات کو جائز فرمایا، مثلا شریر شاعر جو امراء کے پاس قصائد مدح لکھ کر لیجاتے ہیں خاطر خواہ انعام نہ پائیں تو ہجو سنائیں انہیں اگرچہ وہ انعام لینا حرام ہے جس چیز کا لینا جائز نہیں دینا بھی روا نہیں، پھر یہ لوگ کہ اپنی آبرو بچانے کو دیتے ہیں خاص رشوت دیتے ہیں اور رشوت صریح حرام ،باینہمہ شرع نے حفظ و آبرو کے لیے انہیں دینا دینے والے کے حق میں فرمایا اگرچہ لینے کو بدستور حرام محض ہے(جلد 17 صفحہ 229/300)۔
*🔹وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم🔹*
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
*📝 _کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ_ 📝*
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی، خادم سعدی دار الافتا،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
3/ ذی القعدہ 1443ھ
4/ جون 2022ء
*_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰