رقم الفتوی -486
السلام علیکم رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع اِس مسئلے میں کہ ہندہ کا نکاح زید کے ساتھ
ہوا تھا مگر رخصتی نہیں ہوئی تھی. اسی بیچ ہندہ بكر کے ساتھ بھاگ گئی اور نکاح بھی
کیا شوہر اول کے اجازت کے بغیر اب ہندہ اور بكر دونوں ایک ساتھ رہتے ہیں اور ہندہ
اڑھائی ماہ کا حمل سے ہے بكر چاہتا ہے کہ شریعت کے مطابق عمل کیا جائے اور ہندہ بھی
شوہر اول یعنی زید سے خلع نامہ میں دستخط لے چکی ہے اب شریعت کیا حکم عائد کرتی ہیں
اور حمل کا کیا حکم ہے اور نکاح کو کس طرح درست کیا جائے مفصل جواب عنایت فرما کر
شکریہ کا موقع دیں
السائل ۔۔ عقیل رضوی سلی گوڑی ویسٹ بنگال
وعلیکم السلام
ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : نکاح میں رہتے ہوئے دوسرے کے ساتھ فرار
ہونا سخت ناجائز و حرام ہے، اور دونوں پر فرض ہے کہ فوراً جدا ہو جائیں اور علانیہ
توبہ واستغفار کریں۔جب تک شوہو طلاق نہ دے عورت اسی شوہر کے نکاح میں رہے گی عورت
کے لئے جائز نہیں ہے کہ دوسرے مرد کے ساتھ نکاح کرے۔البتہ طلاق یا خلع حاصل کرنے کے
بعد اور عدت گزارنے کے بعد دوسرے مرد کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید
میں ارشاد فرماتا ہے : بيده عقدة النكاح۔ جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔(پارہ 2
سورہ بقرہ آیت 237) دوسری جگہ ہے : وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ ۔ ترجمہ :
اور حرام ہیں شوہر والی عورتیں( پارہ 5 سورہ نساء آیت 24)
لہذا صورت مسئولہ میں اگر
واقعی ہی عورت نے خلع حاصل کر چکی ہے تو عدت گزارنے کے بعد اب دوسرے مرد کے ساتھ
نکاح کرنی درست ہے۔حمل کا حکم یہ ہے کہ نکاح اور رخصتی کے چھ ماہ یا اس سے زائد (
یعنی زیادہ سے زیادہ دو سال تک ) پر بچہ جنی تو شرعاً بچہ اسی شخص کا ہے جس کے نکاح
میں وہ عورت ہے اور اسی سے نسب ثابت ہوگا اور بچہ اسی کا مانا جائے گا۔اگر چھ ماہ
سے قبل بچہ پیدا ہوا تو بچہ کا نسب ثابت نہ ہوگا۔البتہ اگر عورت شوہر اول کے طلاق
کے وقت حاملہ تھی تو اس کی عدت وضع حمل ہے اور عدت کے دوران دوسرے سے نکاح جائز
نہیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے: إذا تزوج امرأة فجاءت بالولد لأقل من ستة أشهر منذ
تزوجها لم يثبت نسبه وان جاءت به لستة أشهر فصاعدا يثبت نسبه منه، ولو طلقها بعد
الدخول ثم جاءت بولد يثبت النسب إلي سنتين ۔ یعنی مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا تو
اس عورت نے نکاح کے وقت سے چھ مہینے سے کم پر لڑکا پیدا کیا تو وہ لڑکا ثابت النسب
نہ ہوگا۔ ( یعنی شوہر کا نہیں مانا جائے گا )اور اگر چھ یا چھ ماہ سے زیادہ پر پیدا
کیا تو شرع کے نزدیک وہ لڑکا شوہر کا ہے۔( ج1 الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب صفحہ
537/536)ہدایہ میں ہے: و إذا تزوج الرجل امرأة فجاءت بولد لأقل من ستة أشهر منذ يوم
تزوجها لم يثبت نسبه. وان جاءت به لستة أشهر فصاعدا يثبت نسبه منه، واكثر مدة الحمل
سنتان۔(ج1 باب ثبوت النسب صفحہ 433/432)قرآن مجید میں ہے: وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ
اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ- ترجمہ: اور حمل والیوں کی عدت یہ ہے کہ
اپنا حمل جن لیں۔ (پارہ 28 سورۃ الطلاق آیت 4)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم
_کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ_
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا
پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال، الہند۔ 18/ صفر المظفر 1444ھ 16/ ستمبر 2022ء
_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎