رقم الفتوی : 493
اقرار طلاق سے طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟؟
کیا فرماتے ہیں، علمائے کرام و مفتیان ذوالاحترام مندرجہ ذی
مسئلہ کے بارے میں زید پر قرب وجوار کی چند خواتین کا الزام ہے، کہ اس نے اپنی منکوحہ ہندہ کو جس کی عمر ساٹھ پینسٹھ سال ہے، سات طلاقیں دے دی ہیں، تحقیق کرنے پر ایک بھی مرد گواہ اس طلاق پر نہ مل سکا، گاؤں کے ایک عالم صاحب کو جب یہ اطلاع پہنچی، کہ زید نے اپنی بیوی ہندہ کو سات طلاق دے دی ہیں، تو اس نے زید کو طلب کرکے دریافت کیاکہ کیا تم نے اپنی بیوی ہندہ کو سات طلاقیں دی ہیں؟ تو اس نے کہا کہ مجھے یاد نہیں آرہا میں نے طلاق دی ہے یا کیا کہا ہے۔ زید کو بار بار خوف آخرت وعذاب قبر یاد دلاکر دریافت کیا گیا پھر بھی اس نے یہی جواب دیا کہ مجھے یاد نہیں کہ میں نے طلاق دی ہے یا کیا کہا ہے عالم صاحب نے کہا بہت سی عورتوں کا بیان ہے کہ تم نے اپنی بیوی کو سات طلاق دی ہیں اور اتنی ساری عورتیں جھوٹ نہیں کہہ سکتی اور چونکہ کوئی مرد گواہ موجود نہیں اس لیے تم کو دو روز کا وقت وقت دیا جاتا ہے، اچھی طرح یاد کر کے اللہ اور رسول اور آخرت پر ایمان کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے بیان دینا تاکہ اس معاملے میں حکم شرع بیان کرنے اور شرعی فیصلہ صادر کرنے میں آسانی ہو دو روز بعد زید نے عالم صاحب کے پاس آکر قریب تین گواہوں کے روبرو بیان دیا کہ مجھے یاد آگیا ہے، کہ میں نے اپنی بیوی کو سات طلاقیں دے دی ہیں ایک حافظ صاحب بھی مجلس میں تشریف فرما تھے انہوں نے پوچھا کہ آپ نے جن الفاظ میں طلاقیں دی تھیں وہ الفاظ صحیح یادہوں تو بیان کیجیے، اس پر سورجاپوری زبان میں زید نے کہا کہ یہ عورت سات طلاق کے قابل ہے ،،ایرا عورت سات طلاقیر قابل چھے،، یہ زندگی بھر نہیں سدھریں اس کو میں سدھار نہیں سکا ،واضح ہو کہ اس آخری جملے پر وہ شخص سختی سے قائم ہے کہتا ہے میں نے یہی جملہ کہا تھا چاہے مجھ سے جو چاہو قسم لے لو اس سے بار بار خوف آخرت وعذاب قبریاد دلاکر عالم صاحب نے پوچھا کہ تم جھوٹ تو نہیں بول رہے ہو تمہارے بیان میں بار بار تبدیلی آ رہی ہے؟ ایک بار سچ سچ بیان کرو اور اللہ سے ڈرتے ہوئے بیان دو تاکہ تمہارا بیان گواہوں کے سامنے قلمبند کر لیا جائے اور اسی بیان پر ازروۓ دلائل شرعیہ حکم شرع ظاہر کیا جائے اگر جھوٹا بیان دو گے تو آخرت میں سخت گرفت ہوگی اور اگر بار بار بیان بدلو گے تو علمائے دین کے لئے حکم شرع بیان کرنا دشوار ہوگا اور غلط بیانی سے دنیا و آخرت کا سارا وبال تم پر آئے گا صحیح صحیح بیان قلمبند کراؤ، تو اس نے یعنی زید نے پھر وہی بیان دیا کہ میں نے اپنی منکوحہ سے کہا تھا کہ یہ عورت سات طلاق کے قابل ہے الحاصل ابتدائے تحقیق میں زید نے کہا ،مجھے یاد نہیں کہ میں نے طلاق دیا یا کیاکہا؟ پھر دو روز کے بعد غوروفکر کرکے اس نے بیان دیا کہ میں نے 7 طلاقیں دی ہیں ،،حافظ صاحب کے اصرار پر کہ طلاق دیتے وقت آپ نے کن الفاظ کا استعمال کیا تھا؟ تو اس نے کہا ایرا عورت 7 طلاقیرقابل چھے،، یہ زندگی بھر نہیں سدھری، مطلب یہ کہ یہ عورت سات طلاق کے قابل ہے یہ زندگی بھر نہیں سدھری،، واضح ہو کہ اس آخری بیان پر وہ اب بھی قائم ہے، اور یہی بیان اس نے مذکورہ عالم دین کو قلمبند کروایا ان مختلف بیانات کے مدنظر علمائے دین و مفتیان کرام ازروئے شرع جواب عنایت فرمائیں کہ زیدکی منکوحہ ہندہ پر طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اور اگر واقع ہونگی تو کتنی طلاق واقع ہونگی؟ اللہ عزوجل اجر آخرت سے نوازے برائے کرم جواب جلدی عنایت فرمائیں۔
سائل : عبدالصبور
الجواب بعونہ تعالیٰ : صورت مسئولہ میں اگر واقعی ہی قائل نے یہ اقرار کیا ہو کہ "میں نے اپنی بیوی کو سات طلاقیں دے دی ہیں" تو اقرار کے وقت سے اسی کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی اب عورت بغیر حلالہ ونکاح صحیح کے ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی کہ وہ اس کے لئے اجنبیہ ہے۔مرد و عورت پر فرض ہے کہ فورا ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔اب سرجاپوری کے جملے کچھ کام کے نہ رہے۔الدر المختار مع الردالمحتار میں ہے : ( لو أقر بطلاقها منذ زمان ) ماض فإن الفتوى أنها من وقت الإقرار مطلقا أي سواء صدقته أم كذبته أم قالت لا أدري،نفيا لتهمة المواضعة.( ج 5/ کتاب الطلاق، باب العدۃ، صفحہ 203) فتاویٰ ہندیہ میں ہے : إذا أقر الرجل أنه طلق امرأته منذ كذا فالعدة من وقت الإقرار ولا يصدق في الإسناد هو المختار.( ج 1/کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر فی العدۃ، صفحہ 532)فتاویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ صاف صاف تین طلاق کا اقرار کرچکا اب اس سے پھرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں، عورت اس پر ہمیشہ کو حرام ہوگئی جب تک حلالہ نہ ہو ان مرد و عورت پر فرض ہے کہ فورا جدا ہو جائیں۔( جلد 12/ صفحہ 400)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی ایک دوسرے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ کیونکہ اس کا'' فارغ خطی'' کے بارے میں پہلے ہونے کا اقرار، طلاق کا اقرار ہے تو یہ قضاءً طلاق ہوگی۔( جلد 12/ صفحہ 563)۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔۔
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی، خادم سعدی دار الافتاء، متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناج پور، ویسٹ بنگال، الہند ۔
16/ ربیع الثانی 1444ھ
11/ نومبر 2022ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎