رقم الفتوی : 502
السلام عليكم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
ہندہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے لڑکر مائکے چلی گئی۔ کچھ دنوں بعد اس کے شوہر کا فون آیا جو کہ غصے میں تھا۔ اس نے کہا کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں, طلاق, طلاق, طلاق, طلاق,پھر ہندہ کی ماں(اپنی ساس) سے اسی وقت فوں میں کہا۔ میں نے اسے آزاد کر دیا ہے۔ میں نے اسے تین شبد (لفظ) کہہ دیا ہے۔ ہندہ کا کہنا ہے کہ اس کے یہ الفاظ فون پر کہتے ہوئے اسکی ایک بالغہ بہن نے بھی سنا,پھر کچھ دنوں کے بعد شوہر کا فون آیا. اس نے رونا دھونا شروع کر دیا اور ہندہ کی ماں سے کہنے لگا کہ میں جھوٹ بول دوں گا ,میں نہیں مانوں گا کہ میں نے طلاق دیا ہے۔ اور پھر شوہر نے فتوی لیا جس میں کہا گیا کہ ایک طلاق ہوئی ہے۔ میرے گھر والوں نے مجھے واپس بھیج دیا اور چار مہینوں تک وہیں رہی,پھر میں نے عالموں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ زنا ہو رہا ہے۔ اب میں مائکے میں ہوں ۔ اب میرے لئے حکم شرع کیا ہے؟
جبکہ شوہر نے مجھ سے فون پر وہی مذکورہ الفاظ بولا تھا اور میری ماں سے بھی کہا تھا کہ میں نے اسے آزاد کر دیا ہے اور اسے تین شبد بول دیۓ ہیں اور اب وہ جھوٹ بول رہا ہے.
المستفتی .. محمد شاہ عالم, ممبئی
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : ﷲ عز وجل ہر غیب کو جانتا ہے فی الواقع اگر شوہر نے ہندہ کو یہ طلاقیں دی ہے طلاق مغلظہ واقع ہوگئی ہے اور ان پر فرض ہے کہ فوراً فوراً جُدا ہو جائیں ورنہ زنا ہے اور دونوں کو عذابِ جہنّم وغضبِ جبّار کا استحقاق ہے۔ لہذا شوہر صرف ایک ہی طلاق دینے کا مقر ہے۔اور ہندہ تین کا دعویدار ہے تو اب ہندہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ شہادت پیش کرے اگر ہندہ اپنے اس دعوی پر دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں عادل ثقہ پیش کر دے تو طلاق واقع ہو جائے گی اگر پیش نہ کر سکے اور شوہر انکار کرے تو ہندہ کا دعویٰ قابل قبول نہیں۔ یعنی تین طلاق مغلظہ ثابت نہ ہو گی تو اس صورت میں شوہر چند سنی صحیح العقیدہ با شرع لوگوں اور ہندہ کے سامنے قسم کھا لے کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک ہی طلاق دی ہے تو اس کی بات قبول کر لی جائے گی اور اگر وہ قسم کھانے سے انکار کر دے تو ہندہ کا دعویٰ ثابت ہو جائے گا اور حکم ہوگا کہ تین طلاق واقع ہوگئی۔ترمذی شریف میں ہے : ان البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه۔ (كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء فی ان باب البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه)۔
اگر شوہر جھوٹی قسم کھائے گا تو اس کا وبال خود اس کے سر ہوگا بروز حشر اس انجام پائے گا۔ البتہ ہندہ کو یقین ہے کہ اس کے شوہر نے اس کو تین طلاق دے دی ہے مگر اس پاس گواہ نہیں ہے کہ انہیں پیش کرے تو اس پر لازم ہے کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو پیسہ وغیرہ دے کر اس سے علانیہ طلاق حاصل کرے اگر شوہر کسی طرح راضی نہ ہو تو اس سے دور رہے کبھی اس کے ساتھ میاں بیوی جیسے تعلقات پیدا نہ کرے اور نہ ہی اس کے مجبور کرنے پر اس سے راضی ہو ورنہ شوہر کے ساتھ وہ بھی سخت گناہگار مستحق عذاب نار ہوگی۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : ہاں اگر گواہ ناقابلِ قبول ہوں تو زید کی قسم معتبر ہوگی پھر اگر ہندہ اپنے ذاتی یقینی علم سے جانتی ہے کہ زید نے اسے تین طلاقیں دی ہیں تو اسے جائز نہ ہوگا کہ زید کے ساتھ رہے ناچار اپنا مہر یا مال دے کر جس طرح ممکن ہو طلاق بائن لے اور یہ بھی ناممکن ہو تو زید سے دُور بھاگے اور یہ بھی ناممکن ہو تو وبال زید پر ہے جب تک کہ ہندہ راضی نہ ہو۔( جلد / 12 صفحہ 396)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن : نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
13/ جمادی الاولی 1444ھ
8/ دسمبر 2022ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎