تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

دعوت قبول کرنا کب سنت واجب ہے؟ کسی مجبوری کے سبب نہ جا سکے تو گناہگار ہوگا یا نہیں؟ نیوتا یعنی چومانہ دینا یا لینا جائز ہے یا نہیں؟

0
دعوت قبول کرنا کب سنت واجب ہے؟  کسی مجبوری کے سبب نہ جا سکے تو گناہگار ہوگا یا نہیں؟

رقم الفتوی : 503


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کی بابت کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی دعوت ولیمہ یا کسی بھی دوسرے جائز دعوت کو قبول کرنا سنت ہے یا واجب، قبول نہ کرنے کی صورت میں گنہگار ہوگا یا نہیں؟ اگر قبول کرلے مگر مجبوری کے سبب نہ جا سکے تو کیا ہوگا؟ نیز چومانہ دینا یا لینا کیسا ہے؟ اگر نہ دے تو کیا ہوگا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔


 المستفتی : افتخار حسین رضوی کشن گنج بہار

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ : دعوتِ ولیمہ کو قبول کرنا سنت مؤکدہ ہے اگر اسے قبول نہ کرے تو گناہگار ہوگا۔ولیمہ کے سوا دوسری دعوتوں کو قبول کرنا اور دعوتوں میں جانا بھی افضل ہے۔اگر کسی مجبوری کے سبب نہ جا سکے تو گناہگار نہیں ہوگا۔ان دعوتوں میں جانے کا حکم سنت یا افضل اس وقت ہے جبکہ معلوم ہو کہ وہاں گانا بجانا، لہو و لعب نہیں ہے اور اگر معلوم ہے کہ یہ خرافات وہاں ہیں تو نہ جائے۔ یا دعوت کرنے والوں کا مقصود ادائے سنت ہو اور اگر مقصود تفاخر ہو یا یہ کہ میری واہ واہ ہوگی جیسا کہ اس زمانہ میں اکثر یہی دیکھا جاتا ہے، تو ایسی دعوتوں میں نہ شریک ہونا بہتر ہے خصوصاً اہلِ علم کو ایسی جگہ نہ جانا چاہیے۔صحیح المسلم میں ہے : عن ابن عمر،قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا دعي احدكم إلى الوليمة فلياتها "۔ اسی میں ہے : عن ابن عمر ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من دعي إلى عرس، او نحوه، فليجب"۔ اسی میں ہے : عن نافع،ان ابن عمر ، كان يقول: عن النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا دعا احدكم اخاه، فليجب عرسا كان، او نحوه" ۔ اسی میں ہے : عن ابي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا دعي احدكم، فليجب فإن كان صائما، فليصل، وإن كان مفطرا، فليطعم "۔ (کتاب النکاح، باب الامر باجابۃ الداعی الی دعوۃ، صفحہ 671/ 673)۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : و اختلف في اجابة الدعوة قال بعضهم واجبة لا يسع تركها و قالت العامة هي سنة والأفضل أن يجيب إذا كانت وليمة والا فهو مخير والاجابة أفضل لأن فيها ادخال السرور في قلب المؤمن كذا في التمرتاشي" (ج / 5، کتاب الکراہیۃ، الباب الثانی عشر فی الہدایا والضیافات، صفحہ 343)۔بہار شریعت جلد سوم میں ہے : دعوتِ ولیمہ سنت ہے ولیمہ کے سوا دوسری دعوتوں میں بھی جانا افضل ہے اور یہ شخص اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا افضل ہے کہ اپنے مسلم بھائی کی خوشی میں شرکت اور اس کا دل خوش کرنا ہے اور روزہ دار ہو جب بھی جائے اور صاحب خانہ کے لیے دعا کرے اور ولیمہ کے سوا دوسری دعوتوں کا بھی یہی حکم ہے کہ روزہ دار نہ ہو تو کھائے، ورنہ اس کے لیے دعا کرے۔ (حصہ 14/ صفحہ 391 )۔

(ا)

چومانہ دینے یا لینے کے متعلق ہندوستان میں مختلف قسم کی رسمیں ہیں تحفہ یا ہبہ یا قرض عموماً رسم و رواج سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ بطور قرض دینے کی ہوتی ہے اس کے متعلق صاحب بہار شریعت صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ شادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح طرح کی چیزیں بھیجی جاتی ہیں اس کے متعلق ہندوستان میں مختلف قسم کی رسمیں ہیں ہر شہر میں ہر قوم میں جدا جدا رسوم ہیں ان کے متعلق ہدیہ اور ہبہ کا حکم ہے یا قرض کا عموماً رواج سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دینے والے یہ چیزیں بطور قرض دیتے ہیں اِسی وجہ سے شادیوں میں اور ہر تقریب میں جب روپے دیے جاتے ہیں تو ہر ایک شخص کا نام اور رقم تحریر کرلیتے ہیں جب اُس دینے والے کے یہاں تقریب ہوتی ہے تو یہ شخص جس کے یہاں دیا جا چکا ہے فہرست نکالتا ہے اور اُتنے روپے ضرور دیتا ہے جو اُس نے دیے تھے اور اس کے خلاف کرنے میں سخت بدنامی ہوتی ہے اور موقع پا کر کہتے بھی ہیں کہ نیوتے (شادی،بیاہ اور دیگر تقریبا ت میں جو تحفہ یا نقدی دی جاتی ہے اسے نیوتا کہتے ہیں) کا روپیہ نہیں دیا اگر یہ قرض نہ سمجھتے ہوتے تو ایسا عرف نہ ہوتا جو عموماً ہندوستان میں ہے۔ (جلد سوم، ہبہ کا بیان، حصہ 14، صفحہ 79)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_


〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

 حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

15/ جمادی الاولی 1444ھ

10/ دسمبر 2022ء

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad