رقم الفتوی : 500
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص کرسی میں بیٹھ کر نماز پڑھے اور سامنے ٹیبل ہو ٹیبل پر سر رکھ کے سجدہ کرے تو کیا نماز مکمل ہوجائے گی بندہ معذور ہے اٹھنے بیٹھنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے برائے مہربانی بحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی : بندئہ خدا
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : اگر واقعی وہ شرعی معذور ہو مثلاً کھڑے ہونے سے یا بیٹھنے سے درد ہوتا ہو یا قیام، رکوع وسجود پر قادر نہ ہو تو وہ معذور ہے اور معذور ہونے کی وجہ سے کرسی پر یا بیٹھ کر نماز پڑھنے اور اشارہ سے رکوع وسجود کرنے کی اجازت ہے۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : و إذا عجز المريض عن القيام صلي قاعدا يركع و يسجد كذا في الهداية.و أصح الأقاويل في تفسير العجز أن يلحقه بالقيام ضرر وعليه الفتوى كذا في معراج الدراية. أو يجد وجعا لذلك فإن لحقه نوع مشقة لم يجز ترك ذلك القيام كذا في الكافي۔( ج 1/ کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر فی صلاۃ المریض، صفحہ 136)۔
لہذا صورت مسئولہ میں سجدہ کے لئے سامنے ٹیبل رکھ کر اس پر سجدہ کرنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ خود اسی نے وہ چیز اٹھائی ہو یا دوسرے نے۔الدر المختار مع الردالمحتار میں ہے : ( ولا يرفع الي وجهه شیئا يسجد عليه ) فإنه يكره تحريما.ولا يرفع الي وجهه شیئ. الاشارة الى كراهته سواء كان بفعله أو فعل غيره له۔ (ج 2/ کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، صفحہ 568)۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : و إن عجز عن القيام والركوع و السجود و قدر على القعود يصلي قاعداً بإيماء و يجعل السجود أخفض من الركوع" ترجمہ: اگر قیام و رکوع وسجود سے عاجز ہے اور بیٹھنے پر قادر ہے تو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھے اور سجدہ کو رکوع سے زیادہ تر نیچا کرے۔اسی میں ہے : و يكره للمومئي أن يرفع اليسه عودا أو وسادة ليسجد عليه۔ ترجمہ : اور اشارہ سے نماز پڑھنے والے کی طرف کوئی لکڑی یا تکیہ اٹھا دینا مکروہ ہے۔( ج 1/ کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر فی صلاۃ المریض، صفحہ 136)
بہار شریعت جلد اول میں ہے : اشارہ کی صورت میں سجدہ کا اشارہ رکوع سے پست ہونا ضروری ہے مگر یہ ضرور نہیں کہ سر کو بالکل زمین سے قریب کر دے سجدہ کے لیے تکیہ وغیرہ کوئی چیز پیشانی کے قریب اٹھا کراس پر سجدہ کرنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ خود اسی نے وہ چیز اٹھائی ہو یا دوسرے نے۔( حصہ 4/ صفحہ 721)۔
اگر تھوڑی درد ہو تو قیام کا چھوڑنا جائز نہیں ہے۔اگر وہ شخص قیام پر قادر ہے تو اس پر لازم کہ تحریمہ کھڑے ہو کر باندھے جب قدرت نہ رہے بیٹھ جائے۔فتاویٰ رضویہ میں ہے :بیشک اُس پر لازم کہ تحریمہ کھڑے ہو کر باندھے جب قدرت نہ رہے بیٹھ جائے ۔یہی صحیح ہے، بلکہ ائمہ رضوان ﷲ تعالیٰ اجمعین سے اس کا خلاف اصلاً منقول نہیں ۔تنویر الابصار ودرمختار میں ہے : ان قدر علی بعض القیام ولو متکأ علی عصا اوحائط قام لزوما بقدر مایقدر ولوقد راٰیة او تکبیرۃ علی المذھب لان البعض معتبر بالکل اگر نمازی قیام پر قادر ہو اگر چہ وہ عصا یا دیوار کے ذریعے ہو تو اس پر حسبِ طاقت قیام کرنا لازم ہے خواہ وہ ایک آیت یا تکبیر کی مقدار ہو۔ مختار مذہب یہی ہے کیونکہ بعض کا کل کے ساتھ اعتبار کیا جاتا ہے۔تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق للعلامہ الزیلعی میں ہے :ولو قدر علی بعض القیام دون تمامه بان کان قدر علی التکبیر قائما او علی التکبیروبعض القراءۃ فانه یؤمر بالقیام و یأتی بما قدر علیہ ثم یقعد اذاعجز۔اگر کچھ قیام پر قادر ہو تمام پر نہ ہو، مثلاً کھڑے ہوکر تکبیر یا تکبیر اور کچھ قرأت پر قادر ہو تو اسے قیام کا حکم دیا جائے اور وہ حسبِ طاقت قیام کے ساتھ بجا لائے ، پھر جب عاجز آئے تو بیٹھ جائے۔خانیہ میں ہے:ولو قدر علی ان یکبر قائما ولایقدر علی اکثر من ذلک یکبر قائما ثم یقعد۔اگر کھڑ ے ہوکر صرف تکبیر کہنے پر قادر ہے اس سے زیادہ پر قادر نہیں تو کھڑے ہو کر تکبیر کہے پھر بیٹھ جائے۔ غنیہ شرح المنیہ للعلامہ ابراہیم حلبی میں ہے:لو قدر علی بعض القیام لا کله لزمه ذلک القدر حتی لوکان لایقدر الاعلی قدر التحریمة لزمه ان یتحرم قائما ثم یقعد۔اگر کچھ قیام پرقادر ہے تمام پر نہیں تو اس پر اس کی مقدار قیام لاز م ہے حتٰی کہ اگر کوئی صرف تکبیر تحریمہ کے مقدار پر قادر ہو تو کھڑا ہوکر تکبیر تحریمہ کہے پھر بیٹھ جائے۔آج کل بہت جہّال ذرا سی با طاقتی مرض یا کبر سن میں سرے سے بیٹھ کر فرض پڑھتے ہیں حالانکہ اولاً ان میں بہت ایسے ہیں کہ ہمّت کریں تو پُورے فرض کھڑے ہوکر ادا کر سکتے ہیں اور اس ادا سے نہ ان کا مرض بڑھے نہ کوئی نیا مرض لاحق ہو نہ گر پڑنے کی حالت ہو نہ دوران سر وغیرہ کوئی سخت الم شدید ہو صرف ایک گونہ مشقت و تکلیف ہے جس سے بچنے کو صراحۃً نمازیں کھوتے ہیں ہم نے مشاہدہ کیا ہے وہی لوگ جنھوں نے بحلیہ ضعف و مرض فرض بیٹھ کر پڑھتے اور وہی باتوں میں اتنی دیر کھڑے رہے کہ اُتنی دیر میں دس بارہ رکعت ادا کر لیتے ایسی حالت میں ہر گز قعود کی اجازت نہیں بلکہ فرض ہے کہ پُورے فرض قیام سے ادا کریں۔ثانیاً مانا کہ انھیں اپنے تجربہ سابقہ خواہ کسی طبیب مسلمان حاذق عادل مستور الحال غیر ظاہر الفسق کے اخبار خواہ اپنے ظاہر حال کے نظر صحیح سے جو کم ہمتی و آرام طلبی پر مبنی نہ ہو بظن غالب معلوم ہے کہ قیام سے کوئی مرض جدید یا مرض موجود شدید و مدید ہوگا مگر یہ بات طول قیام میں ہوگی تھوڑی دیر کھڑے ہونے کی یقیناً طاقت رکھتے ہیں تو ان پر فرض تھا کہ جتنے قیام کی طاقت تھی اُتنا ادا کرتے یہاں تک کہ اگر صرف ﷲ اکبر کھڑے ہو کر کہہ سکتے تھے تو اتنا ہی قیام میں ادا کرتے جب وہ غلبہ ظن کی حالت پیش آتی تو بیٹھ جاتے یہ ابتدا سے بیٹھ کر پڑھنا بھی ان کی نماز کا مفسد ہُوا۔ثالثاً ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ بقدر تکبیر بھی کھڑے ہونے کی قوت نہیں رکھتا مگر عصا کے سہارے سے یا کسی آدمی خواہ دیوار یا تکیہ لگا کر کُل یا بعض قیام پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سہارے یا تکیہ کے ذریعے سے کرسکے بجالائے ، کُل توکُل یا بعض تو بعض ورنہ صحیح مذہب میں اس کی نماز نہ ہوگی۔تبیین الحقائق میں ہے: لو قدر علی القیام متکأ (قال الحلوانی) الصحیح انہ یصلی قائما متکأ ولا یجزیه غیرذلک وکذلک لو قدر ان یعتمد علی عصا اوعلی خادم لہ فانه یقوم ویتکیئ ۔اگر سہارے سے قیام کرسکتا ہو (حلوانی نے کہا ) تو صحیح یہی ہے کہ سہارے سے کھڑے ہوکر نماز ادا کرے اس کے علاوہ کفایت نہ کریگی اور اسی طرح اگر عصا یا خادم کے سہارے سے کھڑا ہوسکتا ہے تو قیام کرے اور سہارے سے نماز ادا کرے۔یہ سب مسائل خوب سمجھ لئے جائیں باقی اس مسئلہ کی تفصیل تام و تحقیق ہمارے فتاوٰی میں ہے جس پر اطلاع نہایر ضرور واہم کہ آجکل نا واقفی سے جاہل تو جاہل بعض مدعیانِ علم بھی ان احکام کا خلاف کرکے ناحق اپنی نمازیں کھوتے اور صراحۃً مرتکب گناہ و تارک صلوٰۃ ہوتے ہیں (جلد 6 صفحہ 161/158)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
18/ جمادی الاولی 1444ھ
13/ دسمبر 2022ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎