رقم الفتوی : 499
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ عورت کو طلاق دینا کب جائز ہے برائے کرم قرآن پاک کی اور حدیث پاک کی اور بزرگان دین رض اللہ تعالی علیہم اجمعین کے قول و فعل کے روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں شکریہ
المستفتی : محمد عرفان رضا ازہری اترپردیش یوپی الہند
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : طلاق فی نفسہ حلال ہے عورت کو طلاق اس وقت دینا جائز ہے جبکہ عورت کا فسق اور کسی حرام فعل کا ارتکاب سے ثابت ہو یا عورت موذی ہو یا نماز کو ترک کرنے کی عادی ہو یا دیگر فرائض کا تارک ہو۔ اللہ تعالیٰ قرآن مقدس میں مطلقاً ارشاد فرماتا ہے : يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّةَ۔ ترجمہ: اے نبی (صلی ﷲتعالی علیہ وسلم) !جب آپ طلاق دیں تو عدت کو پیشِ نظر رکھ کر طلاق دیں اور عدت کو شمار کریں۔( سورہ طلاق آیت 1)
فتاویٰ رضویہ میں ہے : آیت کا وہ حکم اور احادیث کے یہ ارشادات انہی وجہین حل وبغض پر ہیں، اگرعورت پر کوئی شُبہ ہو یا وُہ عاصیہ ہو یا نماز نہ پڑھتی ہو یا بُوڑھی ہوگئی ہو اور اُسے قسم بین النساء سے بچنا ہو تو ان سب صورتوں میں طلاق بلا کراہت جائز و مباح ہے بلکہ بعض صورتوں میں مستحب،علماء فرماتے ہیں کہ اگر عورت نماز نہ پڑھے اور یہ ادائے مہر پر قادرنہ بھی ہو جب بھی طلاق دے دینی چاہئے۔ ( جلد/ 12 صفحہ 331)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
12/ جمادی الاولی 1444ھ
7/ دسمبر 2022ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎