رقم الفتوی : 497
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سوال
ایک مسجد کے امام نے ایک سنیہ لڑکی کا نکاح ایک غیر مقلد وہابی کے ساتھ پڑھایا امام پر شریعت کا کیا حکم ہے
سوال-۲ لڑکا قسم کھاکر کہتا ہے کہ میرا پورا خاندان وہابی غیر مقلد ہیں لیکن میں سنی ہوں اس طرح اسکا نکاح سنیہ لڑکی کے ساتھ ہو سکتا ہے یا نہیں
سوال-۳ امام نے اگر نکاح غلط جانکر پڑھایا ہو یا صحیح جانکر پڑھایا ہو دونوں صورتوں میں امام کے لئے کیا حکم ہے جواب عنایت فرمائیں
المستفتی: الفقیر شمشیر علی قادری اسماعیلی بہرائچ شریف یو پی
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : وہابی، دیوبندی ضروریات دین کے منکر ہیں جس کی بنا پر عرب وعجم کے سیکڑوں علمائے کرام و مفتیان عظام نے انہیں کافر و مرتد قرار دیا اور بالاتفاق فرمایا۔من شك في كفره وعذابه فقد كفر" یعنی جو ان کے عقائد پر مطلع ہوتے ہوئے ان کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔قرآن مجید میں ہے : وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ. ترجمہ : اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی۔ ( پارہ 12 سورہ ہود آیت 113) دوسری جگہ ہے : وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ. ترجمہ: اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔( پارہ 7 سورہ انعام آیت 68) تفسیرات احمدیہ میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : دخل فيه الكافر والمبتدع والفاسق والقعود مع كلهم ممتنع. ترجمہ: ظالموں کی قوم سے مراد عام ہے یعنی ہر مبتدع، فاسق، اور کافر اس میں شامل ہے۔( صفحہ 388)۔مسلم شریف میں ہے : فاياكم واياهم لا يضلونكم ولا يفتنونكم۔ ترجمہ: تم ان سے دور رہنا وہ تم سے دور رہیں کہیں وہ تم کو گمراہ نہ کریں اور تم کو فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ ( ج 1 باب فی الضعفاء والکذابین صفحہ 10)جامع الاحادیث الجامع الصغیر وزوائدہ والجامع الکبیر میں ہے : قال النبي صلى الله عليه وسلم فلاتؤاكلوهم ولاتشاربوهم ولاتجالسوهم ولاتصلواعليهم ولا تصلوا معهم۔ ترجمہ: نہ ان کے ساتھ کھانا کھاؤ، اور نہ ان کے ساتھ پانی پیو، نہ ان کے پاس بیٹھو،نہ ان کے ساتھ نمازپڑھو، نہ ان کے جنازہ کی نماز پڑھو۔ ( جلد 2 صفحہ 466 )۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : یہ فرقے ( یعنی قادیانی، غیر مقلد، اہل قرآن، رافضی،)اور اسی طرح دیوبندی و نیچری غرض جو بھی ضروریات دین سے کسی شے کا منکر ہو سب مرتد کافر ہیں، ان کے ساتھ کھانا پینا، سلام علیک کرنا، ان کی موت وحیات میں کسی طرح کا کوئی اسلامی برتاؤ کرنا سب حرام ہے۔ اسی میں ہے : ان سے کوئی معاملہ اہلِ اسلام کا سا کرنا حلال نہیں، ان سے میل جول نشست و برخاست سلام کلام سب حرام ہے۔( جلد 14 صفحہ 412/410)۔فتاویٰ تاج الشریعہ جلد دوم میں ہے : وہ شخص جس کے یہاں شادی ہوئی ہے اگر دیوبندیوں کو ان کے عقائد کفریہ پر مطلع ہوکر مسلمان جانتا ہے تو وہ کافر مرتد بے دین ہے اس کے یہاں کھانا کھانا،اس سے میل جول حرام اور بد کام بد انجام ہے اور اس کے یہاں چلنے کی دعوت جس نے دی وہ ان سب کا سردار سب سے زیادہ عذاب کا سزاوار ہے اور اگر وہ شخص دیوبندی نہیں اور نہ انہیں مسلمان سمجھتا ہے مگر اس سے میل جول ترک نہیں کرتا تو بھی یہ حکم ہے کہ جب تک توبہ نہ کرے اور دیوبندیوں کے یہاں آنا جانا نہ چھوڑے اسے میل جول منع ہے۔( جلد/ 2 صفحہ 163)۔
(ا)
صورت مسئولہ میں امام صاحب کا ان کے عقائد پر مطلع ہو کر انہیں مسلمان جانتے ہوئے یا ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے وہ از سرے نو ایمان لائے اگر وہ بیوی والا ہو تو تجدید نکاح بھی کرے۔ایسے لوگوں کا نکاح پڑھانا جائز نہیں ہے۔البتہ اگر امام صاحب کو ان کے عقائد کے بارے میں اجمالاً خبر نہیں صرف اتنا معلوم ہے کہ یہ برے لوگ بد عقیدہ بد مذہب ہیں پھر بھی ان کا نکاح پڑھانا سخت حرام ہے۔وہ بھی توبہ واستغفار کرے۔اور یہ اعلان کرے کہ یہ نکاح منعقد ہوا نہیں ہے۔ایسے برے لوگوں کے ساتھ رشتہ کیس قدر بدتر ہے؟ کیونکہ قرآن واحادیث صحیحہ میں ایسے لوگوں سے بچنے کی بہت تاکید آئی ہے کہ غیر مذہب والیوں کی صحبت آگ ہے ذی علم عاقل بالغ مردوں کے مذہب اس میں بگڑ گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے : وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ. ترجمہ: اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔( پارہ 7 سورہ انعام آیت 68) تفسیرات احمدیہ میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں : اللہ عزوجل نے یوشع علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی بھیجی میں تیری بستی سے چالیس ہزار اچھے اور ساٹھ ہزار برے لوگ ہلاک کروں گا۔ عرض کی الٰہی ! برے تو برے ہیں اچھے کیوں ہلاک ہوں گے۔ فرمایا : انھم لم یغضبوا بغضبی واٰکلوھم وشاربوھم۔ ترجمہ : اس لئے کہ جن پر میرا غضب تھا انھوں نے ان پر غضب نہ کیا اور ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک رہے۔(تفسیرات احمدیہ،صفحہ 388)سنن ابی داؤد میں ہے : عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ان اول مادخل النقص علی بنی اسرائیل کان الرجل یلقی الرجل فیقول : یاھذا اتق ﷲ ودع ماتصنع فانه لایحل لک ثم یلقاہ من الغد وھو علی حاله فلا یمنعه ذٰلک ان یکون اکیله وشریبه وقعیدہ، فلما فعلوا ذٰلک ضرب ﷲ قلوب بعضھم ببعض، ثم قال : لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد وعیسٰی ابن مریم ذٰلک بما عصوا وکانوا یعتدونo کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوا یفعلون۔ ترجمہ : بنی اسرائیل میں پہلی خرابی جو آئی وہ یہ تھی کہ ان میں ایک شخص دوسرے سے ملتا اس سے کہتا اے شخص ! اللہ سے ڈر اور اپنے کام سے باز آ کہ یہ حلال نہیں پھر دوسرے دن اس سے ملتا اور وہ اپنے اسی حال پر ہوتا تو یہ مرد اس کو اس کے ساتھ کھانے پینے پاس بیٹھنے سے نہ روکتا جب انھوں نے یہ حرکت کی اللہ تعالیٰ نے ان کے دل باہم ایک دوسرے پر مارے کہ منع کرنے والوں کا حال بھی انھیں خطا والوں کے مثل ہوگیا۔ پھر فرمایا بنی اسرائیل کے کافر لعنت کے گئے داؤد وعیسی بن مریم کی زبان پر ۔ یہ بدلہ ہے ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے کا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو برے کام سے نہ روکتے تھے۔ البتہ یہ سخت بری حرکت تھی کہ وہ کرتے تھے۔ (کتاب الملاحم، باب الامر والنھی، صفحہ 808)۔صحیح البخاری میں ہے : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کمثل صاحب المسک وکیر الحداد : لایعدمک من صاحب المسک إما تشتریه أو تجد ریحه، وکیر الحداد یحرق بیتک او ثوبک اوتجد منه ریحا خبیثة.ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے۔ یا تو مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکو گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تمہارے بدن اور کپڑے کو جھلسا دے گی ورنہ بدبو تو اس سے تم ضرور پا لو گے۔(کتاب البیوع، باب فی العطار و بیع المسک، صفحہ 506)۔سنن ابی داؤد میں ہے : عن أنس، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : و مثل الجلیس الصالح کمثل صاحب المسک إن لم يصبك منه شيء أصابك من ريحه، و مثل جلیس السوء کمثل صاحب الکیر ان لم یصبک من سوادہ اصابک من دخانه۔ ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اور صالح دوست کی مثال مشک والے کی طرح ہے، کہ اگر تمہیں اس سے کچھ بھی نہ ملے تو اس کی خوشبو تو ضرور پہنچ کر رہے گی، اور برے دوست کی مثال اس دھونکنی (لوہے کی بٹھی) والے کی سی ہے، کہ وہ اگر اس کی سیاہی سے بچ بھی جائے تو اس کا دھواں تو لگ ہی کر رہے گا۔(کتاب الادب، باب من یومر ان یجالس،صفحہ 906)۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : غیر مذہب والیوں کی صحبت آگ ہے ذی علم عاقل بالغ مردوں کے مذہب اس میں بگڑ گئے ہیں، عمران بن حطان رقاشی کا قصہ مشہور ہے یہ تابعین کے زمانہ میں ایک بڑا محدث تھا خارجی مذہب کی عورت کی صحبت میں معاذ ﷲ خود خارجی ہو گیا اور یہ دعوٰی کیا تھا کہ اسے سنّی کرنا چاہتا ہے، جب صحبت کی یہ حالت تو اس سے رشتہ کرنا کس درجہ بدتر ہے۔( مخلصا جلد 23 صفحہ 692)۔اسی میں ہے : اور انصاف یہ ہے کہ برا اثر پڑتے معلوم نہیں ہوتا اور جب پڑجاتا ہے تو پھر احتیاط کی طرف ذہن جانا قدرے دشوار ہے لہذا امان و سلامت جدا رہنے ہی میں ہے۔ مولانا قدس سرہ العزیز مثنوی شریف میں فرماتے ہیں: تاتوانی دور شو از یار بد، یار بد بدتر بود از ماربد، مار بد تنہا ہمیں برجان زند، یار بد بر جان وایمان زند۔ ترجمہ : جب تک ممکن ہو برے یار (ساتھی) سے دور رہو کیونکہ برا ساتھی برے سانپ سے بھی زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے اس لئے کہ خطرناک سانپ تو صرف جان یعنی جسم کو تکلیف یا نقصان پہنچاتا ہے جبکہ برا ساتھی جان اور ایمان دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔ ( جلد / 22 صفحہ 205)اسی میں ہے : مولوی معنوی قدس سرہ، فرماتے ہیں : صحبت صالح ترا صالح کند، صحبت طالح ترا طالح کند، دور شو از اختلاط یاربد، یاربد بدتر ازمار بد،مار بد تنہا ہمیں برجاں زند، یار بد برجان وبر ایماں زند۔ ترجمہ : اچھے آدمی کی مجلس تجھے اچھاکردے گی، اور برے کی مجلس تجھے برا بنادے گی،جب تک ہوسکے برے ساتھی سے دور رہ کیونکہ برا ساتھی برے سانپ سے بھی برا ہے کیونکہ برا سانپ صرف جان کو ڈستا ہے جبکہ برا ساتھی جان و ایمان دونوں پر ضرب لگاتاہے۔( جلد/ 24 صفحہ 319)۔
لہذا ایسے لوگوں سے رشتہ کرنا کس قدر بدتر ہے۔
(ب)
اگر لڑکا سنی صحیح العقیدہ ہونے کا اقرار کرے تو اس کے بعد ایک زمانہ دراز تک اسے چھوڑ دیں اور اس کے احوال پر گہری نظر رکھیں جب پورا یقین ہو جائے کہ واقعی وہ سنی صحیح العقیدہ ہو گیا ہے اور وہ وہابی، دیوبندیوں سے بالکل میل جول نہیں رکھتا ہے اور سب گمراہ فرقوں سے نفرت کرتا ہے۔ تو تب ایسے گھر میں نکاح کرنا جائز ہوگا۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے : الفاسق إذا تاب لا تقبل شهادته مالم يمض عليه زمان يظهر عليه أثر التوبة۔ ترجمہ: فاسق نے توبہ کی تو اس کی گواہی فی الحال مقبول نہ ہوگی جب تک کہ اس قدر زمانہ گزر جائے کہ توبہ ظاہر ہو ( ج 3/ کتاب الشہادات، الفصل الثانی فیمن لاتقبل شہادتہ لفسقہ، صفحہ 468)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
1/ جمادی الثانی 1444ھ
25/ دسمبر 2022ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎