〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : صورت مسئولہ میں اگر واقع ہی زید صحت مذہب،قرأت طہارت میں بقدر جواز نماز ہیں اور امام وظیفہ پاتا ہے تو بلا قصور زید کو معزول کرنا ناجائز و گناہ ہے۔جو لوگ بغیر کسی شرعی خرابی کے زید کو منصب امامت سے ہٹانے پر اڑے ہیں وہ سخت غلطی پر ہونے کے ساتھ ایذائے مسلم پر آمادہ ہیں اور ایذائے مسلم حرام ہے۔ ان لوگوں پر لازم ہے کہ اپنے غلط مطالبہ سے باز آجائیں اگر وہ نہ مانیں تو مسلمان ایسے فتنہ پرور لوگوں سے دور رہیں۔ ردالمحتار میں ہے : لایعزل صاحب وظیفة بغیر جنحة. ترجمہ: کسی صاحب وظیفہ کو بغیر کسی گناہ کے معزول نہیں کیاجاسکتا۔(ج3/کتاب الصلاۃ،مطلب لایصح عزل صاحب وظیفہ،صفحہ 423)کنز العمال میں ہے : من اذي مسلما فقد اذاني و من اذاني فقد اذي الله.۔ (ج/ 16 صفحہ 10)فتاویٰ رضویہ میں ہے : اگر واقع ہی زید نہ وہابی ہے نہ غیر مقلد نہ دیوبندی نہ کسی قسم کا بد مذہب،نہ اس کی طہارت یا قرأت یا اعمال وغیرہ کی وجہ سے کوئی وجہ کراہت،بلاوجہ اس کو معزول کرنا ممنوع ہے حتی کہ حاکم شرع کو اس کا اختیار نہیں دیا گیا ۔ردالمختار میں ہے:لیس للقاضی عزل صاحب وظیفة بغیر جنحة۔بغیر کسی وجہ کے قاضی مقرر امام کو معزول نہیں کر سکتا۔اور اگر واقعی اس میں کوئی وجہ کراہت ہے تو اس کی امامت مکروہ ہے اور اس کی نماز نا مقبول۔اور اگر اس میں کوئی وجہ فساد نماز ہے مثلا غیر مقلد یا دیوبندی یا غیر صحیح الطہارۃ یا غیر صحیح القراۃ ہونا،جب تو ظاہر ہے کہ اس کی امامت فاسد اور اس کے پیچھے نماز باطل،محض اس کا معزول کرنا فرض ہے۔( جلد/6 صفحہ 581)
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
25/ شعبان المعظم 1444ھ
18/ مارچ 2023ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎