تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

لون 60/ ہزار روپے بقایا ہوں اس کے پاس موجود 50/ ہزار ہو تو ایسے شخص پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا نہیں؟

0

 

لون 60/ ہزار روپے بقایا ہوں اس کے پاس موجود 50/ ہزار ہو تو ایسے شخص پر زکوٰۃ واجب ہوگی یا نہیں؟

رقم الفتوی : 518



اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ 


        🌹الاستفتا۶🌹


کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیان شرع متین مسٸلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے ایک لاکھ روپے لون پر لیا اور اس کا حاجت اصلیہ کے مطابق سامان خرید لیا زید نے چالیس ہزار روپے لون کا جمع کرچکا ہے اور بقایا رقم لون کا 60 ساٹھ ہزار روپے ہیں زید کے پاس پہلے پچاس ہزار تھا جس کی مدت ایک سال یا اس سے زیادہ کی ہے , زید یہ جاننا چاہتا ہے کہ لون کا بقایا رقم ساٹھ ہزار ہے اور اس کے پاس موجودہ رقم پچاس ہزار ہے تو کیا اس صورت میں زید پر زکوة کا حکم لاگو ہوگا یا نہیں ? 

قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرماٸیں عین نوازش ہوگی 


المستفتی : محمد عمران علی بہار

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ : بینک میں جس قدر لون کی اقساط باقی ہوں وہ کل رقم میں سے نکالی جائیں گی ان کو نکالنے کے بعد اگر مال بقدر نصاب باقی بچتا ہو تو زکوٰۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں۔ مگر قرض کے رقم کے علاوہ جو سود دینا پڑتا ہے وہ قرض میں شامل نہیں ہوگا یعنی اسے( مائنس) نہیں کیا جائے گا اور بلا ضرورت شرعی سودی قرض لینا بھی حرام ہے اس سے توبہ بھی واجب ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں زید کے پاس واقع ہی رقم پچاس ہزار موجود ہو اور قرض 60/ ہزار ہو تو زید پر زکوٰۃ دینا واجب نہیں ہے۔حاشیہ طحطاوی ملاقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے : ( فارغ عن الدين ) أي الذي مطالب من جهة العباد سواء كان الله كزكوة و خراج، أو للعبد ( کتاب الزکاۃ صفحہ 714) فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ( ومنها الفارغ عن الدين ) قال أصحابنا رحمهم الله تعالى كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض الخ ( ج1 کتاب الزکاۃ،الباب الاول فی تفسیرھا الخ صفحہ 173)درمختار میں ہے:لا زکوٰۃ علی مدیون للعبد بقدر دینه فیزکی الزائد ان بلغ نصابا۔ بندہ کے قرضدار پر قرض کی مقدار پر زکوٰۃ نہیں ، ہاں اگر قرض سے زائد نصاب کو پہنچ جائے تو پھر اس کی زکوٰۃ ادا کرے( ج 3 کتاب الزکاۃ صفحہ 176)اُسی میں ہے :فارغ عن دین له مطالب من جهة العباد سواء کان ﷲ تعالیٰ کزکوٰۃ وخراج او للعبد الخ۔اس دین سے فارغ ہو جس کا مطالبہ بندوں کی طرف سے ہے خواہ وُہ ﷲکے لیے ہو مثلاً زکوٰۃ و خراج یا بندے کے لیے الخ ۔ ( ج 3 کتاب الزکاۃ صفحہ 176)فتاویٰ رضویہ میں ہے : دین جس قدر ہوگا اتنا مال مشغول بحالتِ اصلیہ قرار دے کر کالعدم ٹھہرے گا اور باقی پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگر بقدر نصاب ہو، مثلاً ہزار روپے پر حولانِ حول ہو اور اس پر پانسو قرض ہیں تو پانسو پر زکوٰۃ آئے گی اور ساڑھے نوسو دین ہے تو اصلاً نہیں کہ باقی قدر نصاب سے کم ہے ( جلد 10 صفحہ 126)بہار شریعت جلد اول میں ہے : نصاب کا مالک ہے مگر اس پر دین ہے کہ ادا کرنے کے بعد نصاب نہیں رہتی تو زکوٰۃ واجب نہیں ۔ ( حصہ 5 صفحہ 878)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

9/ رمضان المبارک 1444ھ

1/ اپریل 2023ء 

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎



Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad