تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

تجارت کے مال میں زکوٰۃ کیسے نکالیں؟؟خریدی ہوئی مال کی قیمت پر زکوٰۃ ہے یا اس کے نفع پر؟؟

0
تجارت کے مال میں زکوٰۃ کیسے نکالیں؟؟

رقم الفتوی : 515


السلام عليكم ورحمة الله تعالى وبركاته 

حضور مفتی صاحب قبلہ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ سامان تجارت پر زکات کس طرح دینا چاہئے؟

یعنی جتنے میں شئ خریدی ہے اس رقم پر یا جتنے میں فروخت ہوگی اس رقم پر زکات دینی ہوگی؟

مثلاً زید نے ایک چیز ایک ہزار روپیہ میں خریدی ہے 

اور دو ہزار روپیہ میں وہ بکیگی تو ایک ہزار روپیہ کے لحاظ سے زکات نکالنی ہے 

یا دو ہزار روپیہ کے حساب سے؟

جواب عنایت فرمائیں کرم نوازی ہوگی۔ 

جزاك الله تعالى خيرا


المستفتی : ناچیز احمد رضا مقيم حال(كويت)

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ : مال تجارت اس مال کو کہتے ہیں جو بیچنے یا دوکانداری کرنے کے لئے لیا گیا ہو اور اس مال پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے بشرطیکہ وہ مال تجارت خود بقدر نصاب ہو یا کسی اور مال زکوٰۃ کے ساتھ مل کر بقدر نصاب ہو اور مال پر سال بھی گزر چکا ہو۔ 

لہذا صورت مسئولہ میں تجارت کے لئے خریدی گئی مال اور اس کے زر منافع پر زکوٰۃ واجب ہے جبکہ دونوں مل کر یا تنہا یا کسی اور مال زکوٰۃ کے ساتھ مل کر بقدر نصاب ہو۔ اور قرض اور حاجت اصلیہ سے فارغ ہو۔اور اس پر ایک قمری سال گزر جائے تو اس پر ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔ اس کا حساب لگا کر نصاب کا سال پورا ہونے کے دن ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کریں۔ تنویر الابصار میں ہے : اللازم في عرض تجارة قيمته نصاب من ذهب أو ورق مقوما بأحدهما ربع عشر." یعنی تجارت کا وہ سامان جس کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر ہو اس میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ لازم ہے۔ ( ج 3/ کتاب الزکوۃ، باب زکاۃ المال، صفحہ 228)۔تنویر الابصار و در مختار میں ہے : (قيمة العرض ) للتجارة ( تضم الي الثمنين ) لأن الكل للتجارة وضعا و جعلا ( و) يضم ( الذهب إلي الفضة ) و عكسه بجامع الثمنية ( قيمة ). " یعنی تجارت کے سامان کی قیمت سونے اور چاندی کے ساتھ ملائی جائے گی کیونکہ یہ سارے وضعا اور جعلا تجارت کے لئے ہیں اور سونے کو چاندی کے ساتھ اور چاندی کو سونے کے ساتھ قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے گا۔( ج 3/ کتاب الزکوۃ، باب زکاۃ المال، صفحہ 234)۔مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی میں ہے : فرضت على حر مسلم مكلف مالك لنصاب نقد.... أو ما يساوي قيمته من عروض تجارة فارغ عن الدين و عن حاجته الأصلية." یعنی زکوٰۃ فرض ہوتی ہے ہر اس مکلف آزاد مسلمان پر جو دین ( قرض) اور حاجت اصلیہ سے باقی بچنے والے سونے، چاندی کے نصاب کا مالک ہو یا جس مال تجارت کی قیمت اس نصاب کے مساوی ہو۔( ملتقطا )( کتاب الزکوۃ، صفحہ 713)۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : تجارت کی نہ لاگت پر زکوۃ ہے نہ صرف منافع پر، بلکہ سال تمام کے وقت جو زر منافع ہے اور باقی مال تجارت کی جو قیمت اس وقت بازار کے بھاؤ سے ہے اس پر زکوۃ ہے۔ ( جلد 10/ صفحہ162)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

12/ رمضان المبارک 1444ھ

4/ اپریل 2023ء 

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad