رقم الفتوی : 516
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
علمائے کرام و مفتیان عظام مسٔلہ ذیل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ وتر کی نماز میں دعائے قنوت بھول جاۓ اور پیچھے کوئی لقمہ نہ دے اور امام صاحب نے نماز مکمل کر لی تو کیا نماز ہوگی یا نہیں جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی : فقیرمحمد شاہ عالم کشنگنجوی
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : صورت مسئولہ میں دعائے قنوت کا پڑھنا واجب ہے اگر اس نے دعائے قنوت بھول کر چھوڑ دیئے تو رکن واجبات میں کمی ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہے اگر اس نے آخر میں سجدہ سہو کر لیا تو نماز ہو جائے گی ورنہ اعادہ واجب ہے۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : ( و منها القنوت) فاذا تركه يجب عليه السهو.(ج1 الباب الثانی عشر فی سجود السہو صفحہ 126)۔ اسی میں ہے : ولا يجب السجود الا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما۔ (ج1 الباب الثانی عشر فی سجود السہو صفحہ 126)۔ردالمحتار میں ہے: التفکر الموجب للسھو مالزم منه تاخیر الواجب أو الرکن عن محله بان قطع الاشتغال بالرکن أو الواجب قدر اداء رکن و ھو الاصح . ملخصا۔ ترجمہ:ایسا سوچنا جو سہو کا سبب ہے وہ ہوگا جو واجب یا رکن کو اپنے مقام سے مؤخر کردے مثلاً اداء رکن کی مقدار کسی رکن یا واجب سے اعراض کر لیا جائے یہی اصح ہے . ملخصاً(ج2 کتاب الصلاۃ، باب سجود السہو صفحہ 544 )ہدایہ میں ہے: ويسجود للسهو فى الزيادة والنقصان سجدتين بعد سلام ،قال يلزمه السهو اذا زاد فى صلاته فعلا من جنسها ليس منها وهذا يدل على ان سجدة السهو واجبة هو الصحيح لأنها تجب لجبر النقص تمكن فى العبادة فتكون واجبة ۔( ج1 باب سجود السہو صفحہ 451 )۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
14/ رمضان المبارک 1444ھ
6/ اپریل 2023ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎