تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

مصارف زکوٰۃ کے پاس کتنی رقم آجانے سے مالک نصاب بن جائے گا؟ اور ایسے شخص کو زکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیں؟

0
مصارف زکوٰۃ کے پاس کتنی رقم آجانے سے مالک نصاب بن جائے گا؟

رقم الفتوی : 520

 


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ جن کو زکوۃ دے سکتے ہیں تو ان کے پاس کتنی زکات کی رقم آجائے تو ان کو پھر زکاۃ نہ دی جائے برائے کرم تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں

 

سائل : محمد عرفان رضا کانپوری یوپی انڈیا

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ : کسی کے پاس دو سو درہم یعنی ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی مقدار رقم یا سامان ہو جو حاجت اصلیہ اور قرض سے فارغ ہو۔ ایسے شخص کو مالک نصاب کہتے ہیں۔

صورت مسئولہ میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر رقم آجائیں (جو فی زمانہ ( 16/ اپریل 2023ء ) کے اعتبار سے تقریباً بیالیس ہزار (42000) بنتی ہے) تو ایسے شخص کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے جو ایسے شخص کو زکوٰۃ دے گا ان کی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔بدائع الصنائع میں ہے : فلا يجوز صرف الزكاة الغني." ترجمہ : غنی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں (ج 2 / کتاب الزکوۃ،صفحہ 149)۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : صدقہ واجبہ مالدار کو لینا حرام اور دینا حرام، اور اس کے دئے ادا نہ ہوگا، اور نافلہ مانگ کر مالدار کو لینا حرام اور بے مانگے مناسب نہیں جبکہ دینے والا مالدار جان کردے اور اگر وہ محتاج سمجھ کردے تو لینا حرام،اور اگر لینے کے لیے اپنے آپ کو محتاج ظاہر کیا تو دوہرا حرام، ہاں وہ صدقاتِ نافلہ کہ عام خلائق کے لیے ہوتے ہیں اور ان کے لینے میں کوئی ذلّت نہیں وُہ غنی کو بھی جائز ہیں جیسے حوض کو پانی، سقایہ کا پانی، نیاز کی شیرینی، سرائے کا مکان، پل پر سے گزرے۔( جلد 10/ صفحہ 265)۔ 

بہار شریعت جلد اول میں ہے : جو شخص مالک نصاب ہو (جبکہ وہ چیز حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو یعنی مکان، سامان خانہ داری، پہننے کے کپڑے، خادم، سواری کا جانور، ہتھیار،اہلِ علم کے لیے کتابیں جو اس کے کام میں ہوں کہ یہ سب حاجتِ اصلیہ سے ہیں اور وہ چیز ان کے علاوہ ہو، اگرچہ اس پر سال نہ گزرا ہو اگرچہ وہ مال نامی نہ ہو) ایسے کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔اور نصاب سے مراد یہاں یہ ہے کہ اُس کی قیمت دو سو ۲۰۰ درم ہو، اگرچہ وہ خود اتنی نہ ہو کہ اُس پر زکاۃ واجب ہو مثلاً چھ تولے سونا جب دو سو ۲۰۰ درم قیمت کا ہو تو جس کے پاس ہے اگر چہ اُس پر زکاۃ واجب نہیں کہ سونے کی نصاب ساڑھے سات تولے ہے مگر اس شخص کو زکاۃ نہیں دے سکتے یا اس کے پاس تیس بکریاں یا بیس گائیں ہوں جن کی قیمت دو سو ۲۰۰ درم ہے اسے زکاۃ نہیں دے سکتا، اگر چہ اس پر زکاۃ واجب نہیں یا اُس کے پاس ضرورت کے سوا اسباب ہیں جو تجارت کے لیے بھی نہیں اور وہ دو سو ۲۰۰ درم کے ہیں تو اسے زکاۃ نہیں دے سکتے۔(حصہ 5/ مال زکوٰۃ کے مصارف،صفحہ 929)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

24/ رمضان المبارک 1444ھ

16/ اپریل 2023ء 

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad