رقم الفتوی : 522
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ ذیل میں اس طرح کی وصیت کرنا کہ میں مرجاؤں تو فلاں شخص میرے جنازے میں شریک نہ ہوں یا میرے تجہیز وتکفین میں شامل نہ ہوں کیسا ہے؟
از روۓ شرع ایسی وصیت جائز ہے اگر کوئی کریں تو اس وصیت پر عمل کرنا کیسا ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں عین و کرم ہوگا
سائل:- محمد انعام الحق نوری کشن گنج ۔بہار
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
الجواب بعونہ تعالیٰ : صورت مسئولہ میں ایسی وصیت باطل ہے اور اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ یہ اس وصیت کی طرح ہے کہ کسی نے یہ وصیّت کی کہ میرے جنازے کی نماز فلاں شخص پڑھائے تو یہ وصیّت باطل ہے۔ یا کسی شخص نے وصیّت کی کہ میرا جنازہ فلاں بستی یا شہر میں لے جایا جائے اور وہاں دفن کیا اور جنازہ وہاں لے جانے کی وصیّت باطل ہے۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : و لو اوصي بأن يصلي عليه فلان أن الوصية باطلة و في الفتاوي الخلاصة و هو لا يصح. ترجمہ : اگر یہ وصیّت کی کہ مجھے پر فلاں شخص نماز پڑھے کہ یہ وصیّت باطل ہے اور خلاصہ میں لکھا ہے کہ یہ نہیں صحیح ہے(ج6/کتاب الوصایا،الباب الثانی فی بیان الالفاظ التی تکون وصیۃ،إلخ، صفحہ 95)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
9/ رمضان المبارک 1444ھ
1/ اپریل 2023ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎