تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

مزار کے پیسے سے مسجد بنانا جائز ہے یا نہیں؟ مزار پر چڑھے ہوئے چادروں کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

0

 

مزار کے پیسے سے مسجد بنانا جائز ہے یا نہیں؟

رقم الفتوی : 523

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

 کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسلہ کے بارے میں مزار شریف کےعرس کے موقع پر دور دراز سے جتنے بھی زاٸرین آتے ہیں مزار شریف کے غلہ میں روپیے پیسے ڈالتے ہیں اور مزار شریف کے کمیٹی والے زائرین کے ہاتھوں چادر فروخت کرتے ہیں مزار پر چڑھے ہوۓ سبھی چادروں کو دوبارہ فروخت کرتے ہیں اور مزید آمدنی کیلۓ بارہا اسی طرح چادروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے  اور مزار کے قریب ایک مسجد کا تعمیری کام چالو ہے اور گاؤں کے لوگ انہیں پیسوں سے مسجد کے تعمیری کام میں صرف کرنا چاہتے ہیں تو کیا ان پیسوں کو مسجد میں صرف کر سکتے ہیں  تفضیلی 

جواب عنایت فرمائیں ۔


ساٸل۔۔مظاہر الاسلام کشنگنج بہار

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ : اگر صراحتاً رسم و رواج اور عرف سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ مزار شریف میں پیسے ڈالنے والے جانتے تھے کہ اس پیسے سے دوسرے تمام کار خیر کرتے ہیں تو اس پیسوں کو مسجد میں صرف کرنا جائز ہے۔ الاشباہ والنظائر میں ہے : والمعروف عرفا كالمشروط شرعا. ( القاعدۃ السادسۃ، البحث الثالث، صفحہ 84/79)۔ رسم المفتی میں ہے : الثابت بالعرف كالثابت بالنص.( صفحہ 95)۔ورنہ اگر پیسے ڈالنے والوں نے صرف صاحب مزار کے لئے ڈالے ہیں تو اس پیسے سے مزار کے علاوہ دوسرے کام کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ پیسہ جس کے لئے دیا ہے اس میں استعمال کرنا ضروری ہے۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : لا يجوز تغيير الوقف عن هيئته ۔ ترجمہ : وقف کو تغییر کرنا جائز نہیں ہے اس کی صورت سے ۔(ج 2/ الباب الرابع عشر فی المتفرقات،صفحہ 490)۔رد المحتار میں ہے : الواجب ابقاء الوقف على ماكان عليه ۔ وقف کو باقی رکھنا واجب ہے جس پر وہ پہلے تھا۔ ( ج6/ کتاب الوقف، مطلب لایستبد العامر الا فی اربع صفحہ 589) درمختار میں ہے : " شرط الواقف كنص الشارع فى وجوب العمل به " اھ( کتاب الوقف ج 6 ص 649 )

(ا)

اگر چادر ڈالنے والے صاحب مزار کے لئے چڑھاتے ہوں تو وہ چادر ڈالنے والے اس کا مالک ہے اور اس کی خرید و فروخت چادر ڈالنے والے کی اجازت پر موقوف رہیں گے،اگر ڈالنے والے جائز کر دیں تو خرید و فروخت نافذ ہوجائیں گی ورنہ باطل۔ اور بیع باطل سے نفع اٹھانا جائز نہیں۔جو لوگ اس طرح بارہا کرتے ہیں وہ توبہ واستغفار کریں اور آئندہ اس طرح نہ کریں۔کمیٹی والوں کا زائرین کے ہاتھوں میں چادروں کا خرید و فروخت کرنا جائز ہے مگر صاحب مزار کے ڈالے ہوئے چادروں کا خرید و فروخت کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ چادر چڑھانے والے وہاں کے کمیٹی والے کے لئے چڑھائی ہو تو چادروں کا مالک کمیٹی والے ہوں گے اور اس کی بیع جائز ہوگی اور اس سے جو نفع ہو وہ دوسرے کاموں میں لگانا بھی جائز ہے۔فتاویٰ رضویہ میں حضور سرکار اعلیٰ حضرت فقیہ اعظم علیہ الرحمہ والرضوان ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : اگر تصریحاً عُرف ورواج سے یہ امر ثابت ہے کہ وہ چادریں مجاوروں کے لینے کے لئے چڑھائی جاتی ہیں تو مجاور مالک ہوگیا اور بیع جائز ہوئی اور اُسے اوڑھ کر نماز پڑھنے میں حرج نہیں، اور اگر چادر اس لئے چڑھائی کہ مزار پر رہے تو وُہ ملکِ زید پر باقی ہے اور بیعین اس کی اجازت پر موقوف ہیں ،اگر جائز کر دے گا نافذ ہوجائیں گی ورنہ باطل۔(ج 9/ صفحہ 193)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

21/ جمادی الاولی 1444ھ

16/ دسمبر 2022ء

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad