رقم الفتوی : 525
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس سوال کے بارے میں کہ ایک مکان ہے جس کی قیمت ١۸ لاکھ ٧۰۰۰۰ ہزار ہے اور اسکے والد ۲ دو بیٹوں اور ٤ بیٹیوں میں تقسیم کرنا ہے کس کو کتنا حصہ ملیگا باپ کے مکان میں سے اور بیوی کو کتنا ملیگا؟ مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائے جلد سے جلد مہربانی ہوگی۔؟
السائل:👈🏻 محمد شبر پاکستان
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : میت کے مال متروکہ سے تجہیز و تکفین کے بعد اور قرض ادا کرنے کے بعد اور اگر میت نے کوئی وصیت کی ہو تو ثلث مال سے وصیت مکمل کرنے کے بعد پھر مابقیہ مال منقولہ یا غیر منقولہ جائداد کوسارے وارثوں میں تقسیم کردیں۔تو پورے جائداد کو اڑتالیس (48) حصے کئے جائیں گے والد کا آٹھ(8) چار بیٹیاں کا بیس ( 20) حصے، یعنی ہر ایک بیٹی کو پانچ پانچ کر کے، دو بیٹے کا بیس (20) حصہ ملینگے، یعنی ہر ایک بیٹے کو دس دس کر کے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ لِلـذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ. ترجمہ: بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ۔(پارہ4سورہ نساء آیت11)۔سراجی میں ہے : واما لبنات الصلب فاحوال ثلاث النصف للواحدۃ والثلثان للاثنین فصاعدۃ. ومع الإبن للذكر مثل حظ الانثيين. وهو يعصبهن. (سراجی ص 21)۔
لہذا 18 لاکھ 70000 ہزار کا ترکہ میں والد کو، 311,666.66 / ہزار ملے گا۔ اور دو بیٹے کو، 779,166.64/ ہزار ملے گا یعنی ہر ایک بیٹے کو 389,583.32/ اتنے اتنے کر کے ملے گا اور چار بیٹیاں کو، 779,166.64 / ہزار ملے گا یعنی ہر ایک بیٹی کو،194,791.66/اتنے اتنے کر کے ملے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن : نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
20/ ربیع الاخر 1442ھ
6/ دسمبر 2020ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_