رقم الفتوی : 633
786/92
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں
کہ زید ایک سنی صحیح العقیدہ ہے لیکن زید کو ایک بد عقیدہ لڑکی سے پیار ہو گیا پھر شادی بھی ہوئی نکاح پڑھانے والا بھی بد عقیدہ قاضی ہے اور ہندہ حمل سے ہے زید کے گھر والوں کو پتا چلا زید کو دھمکایا تو زید نے گواہوں کی موجودگی میں ہندہ کو تین طلاق دے دیا لیکن ہندہ کو پتا نہیں کہ ان کو طلاق دے دیا ہے اب ہندہ کے بچہ پیدا ہونے کےبعد زید نے ہندہ کو اپنے گھر لےکے آیا تو کیا زید ہندہ کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے'یا نہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
المستفتی : محمد ھارجالی ساکن مچھیل،پوسٹ بٹنہ ،تھانہ۔ بارسوئ ،ضلع کٹیہار ،صوبہ۔ بہار
.....................................................
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : بد عقیدہ یعنی وہابی، دیوبندی،شیعہ ضروریات دین کے منکر ہیں جس کی بنا پر عرب وعجم کے سیکڑوں علمائے کرام و مفتیان عظام نے انہیں کافر و مرتد قرار دیا اور بالاتفاق فرمایا۔ من شك في كفره وعذابه فقد كفر۔یعنی جو ان کے عقائد پر مطلع ہوتے ہوئے ان کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔فتاوی ہندیہ میں ہے : لایجوز للمرتد ان یتزوج مرتدة ولا مسلمة ولا كافرة اصلية وكذالك لايجوز نكاح المرتدة مع احد کذالک فی المبسوط۔( ج1/کتاب النکاح، القسم السابع المحرمات بالشرک، صفحہ 282)فتاویٰ رضویہ میں ہے : جس مسلمان عورت کا غلطی یاجہالت سے کسی ایسے کے ساتھ نکاح باندھا گیا اس پر فرض فرض فرض ہے کہ فوراً فوراً فوراً اس سے جدا ہوجائے کہ زنائے سے بچے، اور طلاق کی کچھ حاجت نہیں، بلکہ طلاق کا کوئی محل ہی نہیں،طلاق تو جب ہو کہ نکاح ہوا ہو، نکاح ہی سرے سے نہ ہوا، نہ اصلا عدت کی ضرورت کہ زنائے کے لئے عدت نہیں، بلا طلاق وبلا عدت جس مسلمان سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔درمختار میں ہے: نکح کافر مسلمة فولدت منه لایثبت النسب منه ولا تجب العدۃ لانه نکاح باطل ۔کسی کافر نے کسی مسلمان عورت سے (اپنے خیال میں) نکاح کرلیا تو اس سے عورت نے بچہ جنا تو اس سے بچے کا نسب ثابت نہ ہوگا۔ اور نہ عورت پر عدت واجب ہوگی، اس لئے کہ وہ ایک باطل نکاح ہے۔ ردالمحتار میں ہے :ای فالوطء، فیه زنا لایثبت به النسب ۔یہ وطی زنا قرار پائے گی اس سے بچے کا نسب ثابت نہ ہوگا۔( جلد 21 صفحہ 281)۔
لہذا صورت مسئولہ میں زید پر فرض ہے کہ فوراً جدا ہو جائے اور زنا سے بچے،اس لئے کہ بد عقیدہ سے نکاح ہوا ہی نہیں۔خواہ کوئی بھی نکاح پڑھائے۔ہاں اگر وہ اپنے باطل عقائد سے توبہ واستغفار اور تجدید ایمان کر لے۔ اور وہ اپنے تمام باطل عقائد رکھنے والے سے قطع تعلق کر لے تو اسے کچھ سالوں کے لئے اپنی حالت پر چھوڑ دے کہ وہ سنیت پر قائم رہتی ہے کی نہیں۔جب خوب اطمینان ہو جائے کہ وہ سنیت پر قائم ہیں تب ان سے نکاح کیا جائے۔اس سے پہلے ہر گز اجازت نہیں۔ایسے موقع پر بد عقیدہ لوگ اپنا مطلب نکالنے کے لئے بظاہر سنی بن جاتے ہیں مگر حقیقت میں وہ اپنا مذہب پر قائم رہتے ہیں اور کچھ دنوں بعد اپنے گھر والوں کو بھی بد عقیدہ بنالیتے ہیں۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے : الفاسق إذا تاب تقبل شهادته مالم يمض عليه زمان يظهر عليه أثر التوبة۔ ترجمہ: فاسق نے توبہ کی تو اس کی گواہی فی الحال مقبول نہ ہوگی جب تک کہ اس قدر زمانہ گزر جائے کہ توبہ ظاہر ہو ( ج 3 /کتاب الشہادات، الفصل الثانی فیمن لاتقبل شہادتہ لفسقہ، صفحہ 448)۔۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
01/ ربیع الاول1446ھ
05/ ستمبر 2024ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

