رقم الفتوی : 634
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین آس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے اپنے موت کے بعد تین بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔زندگی میں اس نے مکان وغیرہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں تقسیم کر دیے تھے۔اب کیش رقم بارہ لاکھ چھوڑی ہے۔بیٹوں اور بیٹیوں کو کتنی کتنی رقم ملےگی۔۔
سائل : فدوی معین الدین رضوی نوری اودے پور موبائل 9982826692
.............................................
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : والد نے اپنے بالغ بیٹے، بیٹیوں کو مکان یا زمین دے کر مالک بنا دی اور ان کی زندگی میں بیٹے، بیٹیوں اس پر قابض ہوگیا تو وہ بیٹے، بیٹیوں کی ملکیت ہے،اور نہ ہی اس میں وارثت جاری ہوگی۔اگر قابض نہ ہو تو اس میں وارثت جاری ہوگی۔
صورت مسئولہ میں بر تقدیر صدق سوال "بعد تقديم ما تقدم على الإرث وانحصار ورثة في المذكورين" شخص کی جائداد منقولہ غیر منقولہ کو نو (9) حصے کئے جائیں گے تین بیٹے کو چھ (6) حصے یعنی ہر ایک بیٹا کو دو دو کر کے۔اور تین بیٹی کو تین (3) حصے یعنی ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ کر کے ملے گا جب کہ ان کے علاوہ اور کوئی وارث نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ لِلـذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ"ترجمہ: بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ۔(پارہ4/ سورہ نساء آیت11)۔
بلفظ دیگر 1200000 لاکھ میں تین بیٹے کو800,000/ ملے گا یعنی ہر ایک بیٹا کو 266,666 کر کے ملے گا۔اور تین بیٹیوں کو 400,000 ملے گا یعنی ہر ایک بیٹی کو 133,333 کر کے ملے گا۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
14/ محرم الحرام 1446ھ
21/ جولائی 2024ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

