رقم الفتوی : 635
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس سوال کے متعلق۔۔۔؟
ہم جموں کشمیر میں رہنے والے ہیں تو ہمارے لیے کس کا اعلان معتبر ہے۔۔۔ شرعی طور پر ہمارے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔۔ جیسے کہ پڑوسی ملک میں آج 30 صفر المظفر ہے۔۔
ہند کے کئی مقامات کا اعلان یہ ہے کہ آج ربیع الاول کی پہلی تاریخ ہے۔۔
جو جموں کشمیر کے رہنے والے ہیں.. کچھ پڑوسی ملک کا اعلان شیئر کرتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں وہ ہند کا اعلان شیئر کرتے ہیں۔ اب یہ ایک اختلافی صورت بن جاتی ہے۔۔۔
یہاں پہلے بھی ایسا ہوا ہے کہ ایک ہی شہر میں کہیں پر یکم رمضان کا روزہ رکھے ہوئے ہیں اور کہیں پہ لوگ 30 شعبان المعظم کہ گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں ۔چاند کے متعلق عوام کافی پریشان رہتی ہے۔ بعض لوگ کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے ملک کا اعلان ہمارے لیے معتبر نہیں ہے۔۔ آپ کی پیاری خدمت میں عرض ہے کہ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ ہمارے لیے کیا درست ہے۔... ؟
سائل : خورشید احمد رضوی ڈوڑہ بھدروا جموں و کشمیر
................................................
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : 29/ کو کسی بھی سبب چاند نظر نہ آئے تو تیس 30/ دن پورے کرے۔ بخاری شریف میں ہے : عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر رمضان، فقال:" لا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له"(ج1/کتاب الصوم، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إذا رأیتم الھلال فصوموا ۔۔۔إلخ، صفحہ 629)۔
اگر ایک جگہ چاند نظر آ جائے تو وہ صرف وہیں کے لیے خاص نہیں، بلکہ تمام جہان کے لیے ہے۔ مگر دوسری جگہ کے لیے اس کا حکم اُس وقت ہے کہ اُن کے نزدیک اُس دن تاریخ میں چاند ہونا شرعی ثبوت سے ثابت ہو جائے یعنی دیکھنے کی گواہی یا قاضی کے حکم کی شہادت گزرے یا متعدد جماعتیں وہاں سے آکر خبر دیں کہ فلاں جگہ چاند نظر آگیا ہے۔ اور رویت ہلال کے ثبوت کے لیے شرع میں سات طریقے ہیں جیسا کہ مجددِ اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ و الرضوان فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں : (1) خود شہادت رویت یعنی چاند دیکھنے والوں کی گواہی۔(2) شہادۃ علی الشہادۃ ۔یعنی گواہوں نے چاند خود نہ دیکھا بلکہ دیکھنے والوں نے ان کے سامنے گواہی دی اور اپنی گواہی پر انہیں گواہ کیا۔ انہوں نے اس گواہی کی گواہی دی۔ یہ وہاں ہے کہ گواہانِ اصل حاضری سے معذور ہوں۔(3) شہادۃ علی القضاء یعنی دوسرے کسی اسلامی شہر میں حاکم اسلام کے یہاں رویت ہلال پر شہادتیں گزریں اور اس نے ثبوت ہلال کا حکم دیا اور دو عادل گواہوں نے جو اس گواہی کے وقت موجود تھے، انہوں نے دوسرے مقام پر اس قاضیٔ اسلام کے روبرو گواہی گزرے اور قاضی کے حکم پر گواہی دی۔(4) کتاب القاضی الی القاضی یعنی قاضی شرع جسے سلطانِ اسلام نے مقدمات کا اسلامی فیصلہ کرنے کے لیے مقرر کیا ہو وہ دوسرے شہر کے قاضی کو، گواہیاں گزرنے کی شرعی طریقے پر اطلاع دے۔(5) استفاضہ یعنی کسی اسلامی شہر سے متعدد جماعتیں آئیں اور سب یک زبان اپنے علم سے خبر دیں کہ وہاں فلاں دن رویتِ ہلال کی بنا پر روزہ ہوا یا عید کی گئی۔(6) اکمال مدت یعنی ایک مہینے کے جب تیس 30/ دن کامل ہو جائیں تو دوسرے ماہ کا ہلال آپ ہی ثابت ہو جائے گا کہ مہینہ تیس 30/ سے زائد کا نہ ہونا یقینی ہے۔(7) اسلامی شہر میں حاکمِ شرع کے حکم سے انتیس 29/ کی شام کو مثلاً توپیں داغی گئیں یا فائر ہوئے تو خاص اس شہر والوں یا اس شہر کے گرد اگر دیہات والوں کے واسطے توپوں کی آوازیں سننا بھی ثبوت ہلال کے ذریعوں میں سے ایک ذریعہ ہے۔۔( جلد 10/ صفحہ 420/405، ملخصاً )۔اسی میں ہے: ہمارے ائمہ مذہب صحیح معتمد میں دربارہ رمضان وعید فاصلہ بلاد کا اصلاً اعتبار نہیں، مشرق کی رؤیت مغرب والوں پر حجت ہے وبالعکس، ہاں دوسری جگہ کی رؤیت کا ثبوت بروجہ صحیح شرعی ہونا چاہئے، خط یاتار، یا تحریر اخبار،افواہِ بازار یا حکایت امصار محض بے اعتبار، بلکہ شہادتِ شرعیہ یا استفاضہ شرعیہ درکار، درمختار میں ہے:اختلاف المطالع غیر معتبر علی المذھب وعلیہ الفتوی فیلزم اھل المشرق برؤیة اھل المغرب اذاثبت عندھم رؤیة اولئک بطریق موجب کما مر۔صحیح مذہب کے مطابق مطالع کا اختلاف معتبر نہیں، اور فتوٰی اسی پر ہے، تو اہلِ مغرب کی رؤیت کی بناء پر اہلِ مشرق پر روزہ لازم ہوگا بشرطیکہ ان کی رؤیت بطریقِ شرعی ان تک پہنچے، جیسا کہ گزرچکا ہے۔ردالمحتار میں ہے : قولہ بطریق موجب کان یتحمل اثنان الشہادۃ أو یشھد اعلی حکم القاضی أو یستفیض الخبر بخلاف مااذا اخبراان اھل بلدۃ کذارأوہ لانه حکایة ۔قولہ" بطریق موجب'' سے مرادیہ ہے کہ دو۲مرد شہادت پر گواہی دیں یا قاضی کے فیصلہ پر گواہی دیں یا خبر مشہور ہوجائے بخلاف اس صورت کے کہ جب یہ خبر دیں کہ فلاں اہلِ شہر نے چاند دیکھا ہے کیونکہ یہ حکایت ہے،اسی میں ہے : قال الرحمتی معنی الاستفاضة ان تاتی من تلک البلدۃ جماعات متعددون کل منھم یخبر عن اھل البلدۃ انھم صاموا عن رؤیۃ الخ۔شیخ رحمتی نے فرمایا: شہرت کا مفہوم یہ ہے کہ اس شہر سے متعدد جماعتیں آئیں اور ہر ایک یہ اطلاع دے کہ اس شہر کے لوگوں نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے۔۔الخ( جلد 10/ صفحہ 447)۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں اہل جموں کشمیر کو پڑوسی ملک یا دوسرے شہر کی رویت ہلال شرعی طور پر اپنے تمام شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے تو وہاں کے لوگوں پر اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہو جائے گا یعنی جو اوپر مذکور ہوا رویت ہلال کے ثبوت میں سات طریقے سے۔اگر رویت ہلال اس طرح حاصل ہو کہ موبائل، ٹیلیویژن، ٹیلی فون، ریڈیو، ٹی وی، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ،خط یا تحریر اخبار،افواہِ بازار یا حکایت امصار سے ہو تو اہل جموں کشمیر کے لئے رویت ہلال شرعی طور پر ثابت نہ ہوگا۔اور اس کا اعتبار بھی نہیں ہو گا۔ اور وہاں کے مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ پہلے رویت ہلال شرعی طور پر حاصل کرے۔پھر لوگوں کو بتائیں ورنہ وہ خود گناہ گار ہو گا اور جو لوگ بغیر ثبوت شرعی مان لے وہ بھی گناہ گار ہوں گے۔ حدیث شریف اور اقوال فقہاء کا قصداً مخالفت کرنے کی وجہ سے ان پر علی الاعلان توبہ ضروری ہے۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
03/ ربیع الاول1446ھ
07/ ستمبر 2024ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

