تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

عورت تنہا یا چند عورتیں گروپ کی شکل میں عمرہ کر سکتی ہے یا نہیں؟

0

 

عورت تنہا یا چند عورتیں گروپ کی شکل میں عمرہ کر سکتی ہے یا نہیں؟

رقم الفتوی : 536



السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔

کیا عورتیں تنہا عمرہ کرنے جا سکتی ہیں اور اگر چند عورتیں گروپ کی شکل میں جانا چاہیں تو کیا جا سکتی ہیں ۔جواب عنایت فرمائیں شکریہ ۔

 سائل : آفتاب احمد برکاتی بستی یوپی

.............................................................

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ : صورت مسئولہ میں عورتیں کا تنہا یا چند عورتیں کا گروپ کی شکل میں عمرہ کرنے جانا جائز نہیں۔اگر بغیر محرم کے چلی گئی تو عمرہ ادا ہو جائے گا، فعل ناجائز کا گناہ ملے گا۔اس لیے کہ عورت کو بغیر محرم کے تین دن یا زیادہ کی راہ جانا ناجائز ہے بلکہ ایک دن کی راہ جانا بھی۔ نابالغ بچہ یا مَعتُوہ کے ساتھ بھی سفر نہیں کرسکتی، ہمراہی میں بالغ محرم یا شوہر کا ہونا ضروری ہے۔ بخاری شریف میں ہے : لا یحل لا مرأۃ تؤمن بالله والیوم الاٰخر ان تسافر مسیرۃ یوم ولیلة، الا مع ذی رحم محرم یقوم علیھا۔ ترجمہ : حلال نہیں اس عورت کو کہ ایمان رکھتی ہو اللہ اور قیامت پر کہ ایک منزل کا بھی سفر کرے مگر محرم کے ساتھ جوا س کی حفاظت کرے۔(کتاب الصلاۃ،باب فی کم یقصر الصلوٰۃ الخ.. صفحہ 265)۔تنوير الابصار مع الدر المختار و الرد المحتار میں ہے : و مع زوج أو محرم بالغ عاقل غیر مجوسی ولا فاسق لامرأۃ ولو عجوزا وھل یلزمھا التزوج قولان ولو حجت بلامحرم جاز مع الکراھۃ۔قوله : قولان ھما مبنیان علی ان وجود الزوج أو المحرم شرط وجوب أم شرط وجوب الاداء، و الذی اختارہ فی الفتح انه مع الصحة وأمن الطریق شرط وجوب الاداء فیجب الایصاء ان منع المرض، وخوف الطریق أو لم یوجد زوج، ولامحرم ویجب علیھا التزوج عند فقد المحرم، وعلی الاول لا یجب شیئ من ذلک کما فی البحر ح وفی النھر وصحح الاول فی البدائع، ورجح الثانی فی النھایة تبعا لقاضیخان، واختارہ فی الفتح۔یعنی عورت خواہ بوڑھی ہو اس کے لیے خاوند یا محرم بالغ کا ہونا ضروری ہے بشرطیکہ وہ محرم فاسق اور مجوسی نہ ہو کیا عورت پر حج کے لیے نکاح ضروری ہے، اس بارے میں دو قول ہیں، اگرعورت نے بغیر محرم حج کر لیا تو جائز مع الکراہت ہوگا۔ قولہ قولان،یہ دونوں اس بنا پر ہیں کہ خاوند یا محرم کا ہونا نفس وجوب کے لیے شرط ہے یا وجوب ادا کے لیے، فتح میں جو مختار ہے وہ یہ ہے کہ صحت اور راہ پر امن ہو تو وجوب ادا کے لیے شرط ہے، اگر مرض یا راستہ کا خوف مانع ہے تو حج کے بارے میں وصیت لازم ہوگی یا خاوند اور محرم نہیں تو محرم کی عدم موجودگی میں نکاح کرنا ضروری ہوگا، اور پہلے قول پر ان میں سے کوئی چیز بھی واجب نہیں جیسا کہ بحر اور نہر میں ہے، بدائع نے اول کو صحیح بتایا اور نہایہ نے قاضی خاں کی اتباع میں دوسرے کو ترجیح دی ہے، اور فتح میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ (ج3/ کتاب الحج، صفحہ 464/465)۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : ولا تسافر المرأة بغير محرم ثلاثة أيام وما فوقها والصبي الذي لم يدرك ليس بحمرم وكذا المعتوه والشيخ الكبير الذي يعقل محرم هكذا في المحيط في كتاب الاستحسان والكراهة.(ج1/ کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، صفحہ 142)۔فتاویٰ رضویہ میں : اللہ کے حکم کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ رسول اللہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: لا یحل لامرأہ تؤمن باﷲ والیوم الاٰخر ان تسافر ثلثة ایام، وفی روایة یوما ولیلة الا ومعھا زوجھا أو ذو رحم محرم منھا۔حلال نہیں کسی عورت کو جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو کہ ایک منزل بھی سفر کو جائے جب تک ساتھ میں شوہر یا وہ رشتہ دار نہ ہو جس سے ہمیشہ ہمیشہ کو نکاح حرام ہے۔جانا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے کسی محرم کو ساتھ لے یا حج سے واپسی تک کے لیے نکاح کر لے اگر چہ ستر اسی برس کی عمر والے سے جو اس کے ساتھ جائے آئے کہ مقصود صرف یہ ہے کہ بے محرم یا شوہر کے جانا صادق نہ ہو، باقی مقاصد زوجیت ہونے نہ ہونے سے بحث نہیں، اور اگر اندیشہ ہو کہ وہ بعد واپسی کے طلاق نہ دے گا تو نکاح یوں کیاجائے کہ عورت کہے میں نے اپنے نفس کو تیرے نکاح میں دیا اس شرط پر کہ جب تو مجھے حج کو لے جائے اور واپس آئے تو واپس اپنے مکان پر پہنچتے ہی مجھ پر طلاق بائن ہو یا اگر تو اس سال اس قافلہ کے ساتھ حج کو میرے ہمراہ نہ جائے تو مجھ پر طلاق بائن ہو مرد کہے میں نے یہ قبول کیا اس شرط پر کہ جب میں تجھے حج کو لے جاؤں( الی آخرہ) یوں اگر وہ ساتھ نہ جائے تو طلاق ہو جائے گی، اور ساتھ جائے تو واپس پہنچتے ہی طلاق ہو جائے گی بغیر اس کے جو قدم رکھے گی گناہ لکھا جائے گا، ان گناہان کثیرہ کے باعث اگر رشتہ دار اس سے نہ ملیں تو بے جا نہیں۔( جلد 10/ صفحہ 710)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_


کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

05/ ربیع الاول1446ھ

09/ ستمبر 2024ء

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad