تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

نکاح خوانی کی اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟ نکاح خوانی کا ہدیہ کتنا ہونا چاہئے ؟

0


نکاح خوانی کی اجرت لینا جائز ہے یا نہیں؟

رقم الفتوی : 637


السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ 


امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہونگے اللہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش رکھے شاد و آباد رکھے 


                🤲🤲🤲 


آمین ثم آمین یا رب العالمین



بعدہ 

 

ایک سوال عرض ہے کہ 


نکاح پڑھانے کی اُجرت لینا کیسا ہے اور اسکا کوئی شرعی ثبوت بھی ہے یا نہیں 


اور کِتنی اجرت لے سکتے ہیں 

شرعی لحاظ سے کتنے پیسے بنتے ہیں 


جیسا کہ میں نکاح پڑھانے کے بعد ۵۰۰۰

ہزار روپے لیتا ہوں 

تو کیا اتنی اجرت لینا درست ہے یا پھر اس سے بھی زیادہ بنتی ہے 


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین 

کے زمانے میں کِتنی اجرت چلتی تھی 

برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی 


سائل : محمد شاہرخ رضا سوار رامپور اُتر پردیش 244924

.................................................

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ : نکاح خواں کو نکاح خوانی کے عوض اجرت پہلے سے مقرر کرنا اور مقررہ شدہ اجرت لینا درست،چاہے جتنی اجرت پر مقرر ہوں۔اور اگر اس سے کم دے تو مطالبہ کرنا بھی درست ہے۔اور اجرت کا معاملہ زمانے کے رسم و رواج و حالات اور اہل زمانہ کی ضروریات کے پیش نظر بدلتا رہتا ہے اس لیے جہاں جو اجرت لینے دینے کا رسم و رواج ہے وہی صحیح ہے۔ہاں اگر مقرر نہ کی ہو دینے والے بخوشی جس قدر دیں، لینے میں حرج نہیں۔اس لئے کہ متقدمین کے یہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ کتنی اجرت متعین کی جاے اُس زمانے کے لحاظ سے فتویٰ اس پر تھا کہ باکرہ کی نکاح خوانی کی اجرت ایک دینار ہو اور ثیبہ کی نکاح خوانی کی اجرت نصف دینار۔فتاوی ہندیہ میں ہے : وفي فتاوى النسفي إذا كان القاضي يتولى القسمة بنفسه حل له أخذ الأجرة وكل نكاح باشره القاضي وقد وجبت مباشرته عليه ‌كنكاح ‌الصغار والصغائر فلا يحل له أخذ الأجرة عليه، وما لم تجب مباشرته عليه حل له أخذ الأجرة عليه۔( ج 3/ كتاب أدب القاضي،الباب الخامس عشر في أقوال القاضي وما ينبغي للقاضي أن يفعل، صفحہ 345)۔اسی میں ہے : و اختلفوا في تقديره و المختار للفتوي أنه إذا عقد بكرا يأخذ دينارا و في الثيب نصف دينار و يحل له ذلك هكذا قالوا، كذا في البرجندي۔ترجمہ: علما کا اجرت نکاح کی تعیین میں اختلاف ہے اور فتویٰ کے لیے اختیار کردہ قول یہ ہے کہ جب باکرہ کا نکاح پڑھاے تو ایک دینار لے اور ثیبہ کے نکاح کے لیے نصف دینار، اور نکاح خواں کے لیے وہ اجرت حلال ہے، جیساکہ علما نے فرمایا ہے۔ ایسا ہی برجندی میں ہے۔( ج 3/ كتاب أدب القاضي،الباب الخامس عشر في أقوال القاضي وما ينبغي للقاضي أن يفعل، صفحہ 345)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

10/ ربیع الاول1446ھ

14/ ستمبر 2024ء

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad