رقم الفتوی : 643
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام وہ مفتیان عظام اس مسلہ پر کہ ایک شخص جس کا نام سید گلزار علی ہے وہ اکثر وہ بیستر تاش کھیلنے کا عادی ہے ماہ رمضان جیسے مقدس ماہ میں بھی تاش کھیلنا نہیں چھوڑا حدیث پاک کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل ۔۔محمد عمر خان برتوندا ۔۔اڑیشا
...............................................
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : تاش کھیلنا اور اس میں سٹہ لگانا یہ بھی ایک جوا کی قسموں میں سے ایک قسم ہے اور تاش کھیلنے میں سٹہ لگانا ناجائز و حرام ہے اور اس سے جس قدر مال کمایا ہے وہ بھی حرام ہے۔قرآن مجید میں ہے: يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِـرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ ترجمہ: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ، ( پارہ 6 سورہ مائدہ آیت 90 )۔ در مختار میں ہے : السحت مایأخذ مقامر (باختصار)۔ ترجمہ : جوئے میں حاصل کیا ہوا مال حرام ہے۔ (باختصار)۔(کتاب الحظر و الاباحۃ ، فصل فی البیع)۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : جس قدر مال جوئے میں کمایا محض حرام ہے۔فی الدر من السحت ما یأخذ مقامر . (باختصار)درمختار میں ہے: جوئے میں حاصل کیا ہوا مال حرام ہے۔ (باختصار)۔اور اس سے برائت کی یہی صورت ہے کہ جس جس سے جتنا مال جیتا ہے اسے واپس دے، یا جیسے بنے اسے راضی کرکے معاف کرالے۔ وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو واپس دے، یا ان میں جو عاقل بالغ ہوں ان کا حصہ ان کی رضامندی سے معاف کرا لے۔ باقیوں کا حصہ ضرور انھیں دے کہ اس کی معافی ممکن نہیں، اور جن لوگوں کا پتہ کسی طرح نہ چلے نہ ان کا، نہ ان کے ورثہ کا ، ان سے جس قدر جیتا تھا ان کی نیت سے خیرات کر دے، اگر چہ اپنے محتاج بہن، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کو دے دے، اس کے بعد جو بچ رہے گا وہ اس کے لئے حلال ہے۔عالمگیری میں ہے : کان الاخذ معصیة والسبیل فی المعاصی ردها، وذلک ھهنا برد الماخوذان تمکن من ردہ، بان عرف صاحبه، وبالتصدق به ان لم یعرفه۔لینا گناہ ہے اور گناہ کے ازالہ کی صورت اس کو واپس کرنا ہے اور یہاں لئے ہوئے کو رد کرنا ہوگا۔ جب واپس کرنا ممکن ہو کہ اس کے مالک کو جانتا ہو یا پھر معلوم نہ ہو تو صدقہ کرنا ہوگا۔ردالمحتار میں ہے:ان علمت اصحابه او ورثتهم وجب ردہ علیهم، والا وجب التصدق به۔اگر اس کے مالک یا مالک کے ورثاء کو جانتا ہے تو واپس کرنا واجب ہے۔ ورنہ صدقہ کرنا واجب ہے۔غرض جہاں جہاں جس قدر یاد ہو سکے کہ اتنا مال فلاں سے ہار جیت میں زیادہ پڑا تھا اتنا تو انھیں یا ان کے وارثوں کو دے، یہ نہ ہو تو ان کی نیت سے تصدق کرے، اور زیادہ پڑنے کے یہ معنی کہ مثلا ایک شخص سے دس بار جوا کھیلا کبھی یہ جیتا کبھی یہ، اس کے جیتنے کی مقدار مثلا سو روپے کو پہنچی، اور یہ سب دفعہ کے ملا کر سوا سو جیتا، تو سو سو برابر ہوگئے، پچیس اس کے دینے رہے۔ اتنے ہی اسے واپس دے، وعلی ہذا القیاس ، اورجہاں یاد نہ آئے کہ کون کون لوگ تھےاور کتنا لیا، وہاں زیادہ سے زیادہ تخمینہ لگائے کہ اس تمام مدت میں کس قدر مال جوئے سے کمایا ہوگا اتنا مالکوں کی نیت سے خیرات کردے، عاقبت یونہی پاک ہوگی۔(جلد 19/ صفحہ 651)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
25/ ربیع الاول1446ھ
29/ ستمبر 2024ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_