رقم الفتوی : 647
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں کہ کوئی شخص بلا تحقیق فتاویٰ دے تو اسکا کیا حکم ہے اور کسی عالم کو سرقہ باز بلا تحقیق کہے تو کیا حکم ہے اور کسی عالم کو شہرت کے بھوکے کہے تو کیا حکم ہے عند الشرع جواب عنایت فرمائیں
المستفتی ۔۔۔۔۔ صابر رضا مرادآباد
..................................................
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ و الرضوان فتاویٰ رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : سند حاصل کرنا تو کچھ ضرور نہیں، ہاں باقاعدہ تعلیم پانا ضرور ہے مدرسہ میں ہو یا کسی عالم کے مکان پر، اور جس نے بے قاعدہ تعلیم پائی وہ جاہل محض سے بدتر، نیم ملاخطرہ ایمان ہوگا ایسے شخص کو فتوی نویسی پر جرأت حرام ہے۔ حدیث میں ہے نبی صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من افتی بغیر علم لعنته ملئکة السماء والارض۔جو بے علم فتوی دے اس پر آسمان و زمین کے فرشتوں کی لعنت ہے۔اور اگر فتوی سے اگر چہ صحیح ہو وجہ ﷲ مقصود نہیں بلکہ اپنا کوئی دنیاوی نفع منظور ہے تو یہ دوسرا سبب لعنت ہے کہ آیات ﷲ کے عوض ثمن قلیل حاصل کرنے پر فرمایا گیا : اولئک لاخلاق لھم فی الاخرۃ ولایکلمھم ﷲ ولاینظر الیھم یوم القیمة ولایزکیھم ولھم عذاب الیم۔ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور ﷲ ان سے کلام نہ فرمائے گا اور نہ قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت کرے اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔اور علمائے دین کی توہین کرنے والا منافق ہے۔ حدیث میں ہے نبی صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں :ثلثة لایستخف بحقھم الا منافق بین النفاق ذو العلم وذو الشیبة فی الاسلام و امام مقسط۔تین شخصوں کا حق ہلکانہ جائے گا مگر جو منافق کھلا منافق ہو عالم اور وہ جسے اسلام میں بڑھاپا آیا اور سلطان اسلام عادل۔تحصیل زر کے لئے علماء مسلمین پر بیجا حملہ کرنے والا ظالم ہے اور ظلم قیامت کے دن ظلمات، قاضی مذکور جیسے امام کے پیچھے بلا وجہ شرعی نماز ترک کرنا تفریق جماعت یا ترک جماعت ہے، اور دونوں حرام و ناجائز۔( جلد 23/ صفحہ 709)۔
صورت مسئولہ میں بلا تحقیق کسی بھی مسلمان پر مذکورہ باتیں کہنا جائز نہیں ہے۔اور ان باتوں سے مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام۔اگر ان کے اندر مذکورہ باتیں پائی جائے تو اس پر ثبوت شرعی قائم کرے۔ورنہ ان سے علانیہ معافی مانگے۔ قرآن مجید میں ہے : وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۚ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُـوْلًا۔ ترجمہ : اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے۔( سورہ بنی اسرائیل، آیت 36)۔کنز العمال میں ہے : من اذي مسلما فقد اذاني و من اذاني فقد اذي الله.۔ (ج/ 16 صفحہ 10)۔حجۃ الاسلام غزالی قد س سرہ العالی احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں : ''کسی مسلمان کی طرف گناہ کبیرہ کی نسبت جائز نہیں جب تک تواتر سے ثابت نہ ہو''(ج3/احیاء العلوم، کتاب آفات اللسان الآفۃ، صفحہ 125)۔وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
09/ ربیع الآخر 1446ھ
13/ اکتوبر 2024ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_