رقم الفتوی : 649
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرح متین اس مسںٔلہ میں کہ ایک سیٹھ ہے اس کا ایک مزدور جو کاروبار سنبھالتا ہے اور اسی کاروبار کے پیسوں سے سود بیاج کر کاروبار کرتا ہے غیر مسلم سے جیسے ۵۰۰۰ پر ۵۰۰ بڑھا کر لیتا اسی پیسوں سے مزدوری لینا کیسا ہے اس مسئلہ کو شریعت کی روشنی میں بیان فرمائے
سائل ۔محمّد اظہار اشرف مالیگاؤں شہر
.....................................
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : اگر سیٹھ مسلمان سے سود بیاج کا لین دین کرتا ہے تو یہ حرام ہے۔قرآن مجید میں ہے : " اَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا" ترجمہ: اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا اور ربا کو حرام۔( پارہ 2 /سورہ بقرہ آیت 275)۔صحیح مسلم میں ہے :"لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم اكل الربٰو و مؤكله وكاتبه و شاهده وقال هم سواء"۔ ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےلعنت فرمائی سود کھانے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والوں پر اور فرمایا وہ سب برابر ہیں( ج2/ باب الربا صفحہ 27)۔اگر غیر مسلم کو پیسے روپیہ دیکر اس سے زیادہ لیتا ہے تو یہ جائز ہے اگر چہ شرط کے ساتھ ہو، اگر چہ غیر مسلم سود ہی کہہ کر دے مگر مسلمان زیادتی سود سمجھ کر نہ لے بلکہ ایک مال مباح سمجھ کر لے۔ اس لیے کہ مسلمان اور غیر مسلم کے مابین سود کا تحقق نہیں۔حدیث پاک میں ہے : قوله عليه السلام لاربابين المسلم والحربي في دارالحرب۔ ترجمہ: مسلمان اور حربی کے درمیان دار الحرب میں کوئی سود نہیں (ہدایہ ج2/ باب الربا صفحہ 86) فتح القدیر میں ہے : ولأبي حنيفة ومحمد ماروي مكحول عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ولاربابين المسلم والحربي في دارالحرب ذكره محمد بن الحسن ولأن مال اهل الحرب في دارهم مباح بالاباحةالاصلية والمسلم المستأمن إنما منع من أخذه لعقدالامان حتى لا يلزم الغدر فاذابذلك الحربي ماله برضاه زال المعني الذي حظر لأجله.( ج7/ باب الربا صفحہ 39)۔
صورت مسئولہ میں اگر سیٹھ بعینہ وہی حرام مال سے مزدور کو اپنی مزدوری دیتا ہے تو یہ دینا جائز نہیں۔ہاں اگر مزدور کو معلوم ہو کہ جو اس نے دیا وہ مال حلال سے تھا تو اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اور اگر معلوم ہو کہ یہ پیسے روپیہ جو اس نے دیا ہے اگر چہ عین حرام مال سے نہیں مگر اس میں مال حلال و حرام اس طرح سے ملے ہوئے ہیں کہ تمیز نہیں ہو سکتی یا ہو تو بدقت تمام ہو تو اس صورت میں جس قدر مال وجہ حلال سے تھا اس قدر لینا تو بلاشبہ جائز ہے۔یہ تمام صورتیں اس وقت تھیں جب اسے اس مال کا حال معلوم ہو، ورنہ تو اس صورت میں فتویٰ جواز ہے کہ اصل حلت ہے، جب تک خاص اس مال کی حرمت نہ ظاہر ہو، لینے سے منع نہ کریں گے، بالجملہ جسے اپنے دین وتقویٰ کا کامل پاس ہو وہ غلبہ حرام کی صورت میں احتراز ہی کرے جب تک خاص اس شیئ کی حلت کا پتہ نہ چلے ورنہ فتویٰ تو جواز ہی ہے۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : عن الامام الفقیه ابی اللیث اختلف الناس فی اخذ الجائزۃ من السلطان قال بعضھم یجوز مالم یعلم انه یعطیه من حرام، قال محمد رحمه ﷲ تعالى وبه ناخذ مالم نعرف شیئا حراما بعینه وھو قول ابی حنیفة رحمه ﷲ تعالى واصحابه" ترجمہ : فقیہ ابواللیث سے روایت ہے بادشاہ سے انعام لینے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے، بعض نے فرمایا کہ لینا جائز ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مالِ حرام سے دیتا ہے، امام محمد نے فرمایا ہم اسی کو لیتے ہیں جب تک کسی معین شیئ کے حرام ہونے کی شناخت نہ ہو، امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں کا یہی قول ہے۔(ج 5/ کتاب الکراھیۃ، الباب الثانی عشر، صفحہ 342)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
15/ ربیع الآخر 1446ھ
19/ اکتوبر 2024ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_