تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

مکہ مکرمہ پہونچ کر عورت بیوہ ہو جائے تو وہ اب کیا کرے گی؟ بیوہ عورت عدت کیسے گزارے گی؟

0


مکہ مکرمہ پہونچ کر عورت بیوہ ہو جائے تو وہ اب کیا کرے گی؟

رقم الفتوی : 652


کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:ہندہ اپنے شوہر اور بہو بیٹا کے ساتھ عمرہ کوگئی تھی ان کا شوہر مکہ میں انتقال کر گیا توکیاوہ عدت گزارنے کے لئے گھر واپس آئے گی، یا مدینہ شریف جاسکتی ہے؟ ہندہ کے پاس واپس آنے کی رقم ہے تو اس صورت میں اور اگر رقم نہیں ہے تو اس صورت میں دونوں حال میں کیاحکم ہوگا؟

 اور عدت کے کیا احکام جاری ہونگے۔ براہ کرم بحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔ 

المستفتی: ابوضیاءغلام رسول سعدی کٹیہاری

21,10,2024

.............................................

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ : اگر ہندہ عمرہ کے لئے نکلی اور مکہ مکرمہ پہونچ کر بیوہ ہوگئی تو وہ ارکان عمرہ ادا کرے اور اگر ممکن ہو تو مکہ مکرمہ میں رہ کر عدت پوری کرے اور اگر وہاں رکنا دشوار ہو تو اپنے وطن پہونچ کر جس قریب کی آبادی میں عدت گزارنا آسان ہو وہاں گزارے بصورت مجبوری شوہر کے گھر آکر عدت پوری کرے۔اور وہ مدینہ شریف نہیں جاسکتی ہے۔ فتح القدیر میں ہے : و في البدائع رجعت و بلغت ادني المواضع التي تصلح للاقامة اقامت فيه و اعتدت ان لم تجد محرما بلا خلاف و كذا ان وجدت عند ابي حنيفة و مثله في المحيط و فيه، البدوي طلق امراته فاراد نقلها الي مكان آخر في الكلاء و الماء فإن لم تتضرر بتركها في ذلك الموضع في نفسها او مالها ليس له ذلك و ان تتضرت فله ذلك إذا الضرورات تبيح المحظورات. (ج 4/ کتاب الطلاق، باب العدۃ، صفحہ 313)۔فتاویٰ رضویہ میں : اور اگر شوہر ومحرم نہیں رکھتی تو اگر اتنی دور پہنچ گئی کہ مکہ معظمہ تک مدت سفر نہیں مثلا جدہ پہنچ گئی تو اب چلی جائے اور واپس نہ ہو کہ واپسی میں سفر بلا محرم ہے اور وہ حرام ہے۔وکانت کمن ابانھا زوجھا اومات عنھا ولو فی مصر ولیس بینھا وبین مصرھا مدۃ سفر رجعت ولو بین مصرھا مدۃ و بین مقصدھا اقل مضت۔مثلا اس عورت کو خاوند نے طلاق بائن دے دی یا وہ فوت ہوگیا اگر وہ شہر تھا اور اس عورت اور اس کے وطن کے درمیان مدت سفر نہیں تو وہ عورت لوٹ آئے اور اگر اس کے وطن کے لیے مدت سفر ہو اور مقصد کے لیے مدت سفر کم ہو تو سفرجاری رکھے۔پھر بعد حج مکہ معظمہ میں اقامت کرے بلا محرم گھر کو واپس آنا بلکہ مدینہ طیبہ کی حاضری ناممکن ہے۔( جلد 10/ صفحہ 708)۔

عدت کی صورت یہ ہے کہ اگر حمل والی ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہے ورنہ وفات کی عدت چار مہینے دس دن گزارے۔ قرآن مجید میں ہے : وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّؕ- ترجمہ : اور حمل والیوں کی عدت یہ ہے کہ اپنا حمل جن لیں۔ (سورہ طلاق، آیت 4) اور دوسری جگہ ہے : وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ- ترجمہ : تم میں جو مرجائیں اور بی بیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ ( سورہ بقرہ، آیت 234)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

23/ ربیع الآخر 1446ھ

27/ اکتوبر 2024ء 

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad