رقم الفتوی : 660
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حضور مفتی صاحب قبلہ کی بارگاہ میں سوال یہ عرض ہے کہ بلیک کا چاول خریدنا کیسا ہے یعنی کوٹا کا چاول ڈیرل سے لینا جو ہر عام و خاص لوگوں کے لئے آتا ہے اور ڈیرل اُن چاولوں کو بلیک میں بیچتا ہے اس طرح کا چاول خرید نے کا شریعت میں کیا حکم ہے تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں عین و نوازش ہوگی
سائل ۔ محمد احسان الحق رضوی اُتردیناجپور بنگال
............................................
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : صورت مسئولہ میں ڈیرل کا کوٹا کا چاول کو بلیک کر کے بیچنا جائز نہیں۔ اور بلیک ( چھوپ کر بیچنا) ایک قسم کی چوری کا مال ہے اور چوری کا مال ( چاول) جانتے ہوئے خریدنا حرام ہے۔اگر معلوم نہ ہو مظنون ہو جب بھی حرام ہے۔کیونکہ بیچنے والا چوری کے مال کا مالک ہی نہیں ہوتا ہے۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : چوری کا مال دانستہ (جان بوجھ کر) خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون (گمان غالب) ہو جب بھی حرام ہے مثلاً کوئی جاہل شخص کہ اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی علمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی ملک بتائے اس کے خریدنے کی اجازت نہیں اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہو جائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کا استعمال حرام ہے بلکہ مالک کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو، اور ان کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فقراء کو۔(جلد 17/صفحہ 165)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
13/ جمادی الاول 1446ھ
16/ نومبر 2024ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_