رقم الفتوی : 667
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسلہ میں کہ کوئی شخص حرام کمائے پھر اسی پیسے سے کتاب خریدے تو اس کتاب سے علم حاصل کرنا کیسا ہے
حوالے کے ساتھ جوآب عنایت فرمائیں
سائل : عبدالمصطفی قادری متعلم دارالعلوم مخدومیہ ردولی شریف ضلع فیض اباد اجودھیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : اگر بعینہ وہی حرام کمائی سے کتاب خریدی ہو یعنی عقد و نقد جمع ہو تو اسے پڑھنا جائز نہیں۔اگر عقد و نقد جمع نہ ہو اگرچہ بعینہ پیسہ حرام کا ہو تو بھی جائز ہے۔ یہی صورت آج کل پائی جاتی ہے کوئی بھی بیع کرتے وقت عقد و نقد جمع نہیں کرتا۔ہاں اگر اس میں مال حلال و حرام اس طرح سے ملے ہوئے ہیں کہ تمیز نہیں ہو سکتی یا ہو تو بدقت تمام ہو تو اس صورت میں بھی جائز ہے۔پھر بھی جسے اپنے دین وتقویٰ کا کامل پاس ہو وہ اس سے احتراز ہی کرے۔۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے : عن الامام الفقیه ابی اللیث اختلف الناس فی اخذ الجائزۃ من السلطان قال بعضھم یجوز مالم یعلم انه یعطیه من حرام، قال محمد رحمه ﷲ تعالى وبه ناخذ مالم نعرف شیئا حراما بعینه وھو قول ابی حنیفة رحمه ﷲ تعالى واصحابه" ترجمہ : فقیہ ابواللیث سے روایت ہے بادشاہ سے انعام لینے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے، بعض نے فرمایا کہ لینا جائز ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ وہ مالِ حرام سے دیتا ہے، امام محمد نے فرمایا ہم اسی کو لیتے ہیں جب تک کسی معین شیئ کے حرام ہونے کی شناخت نہ ہو، امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں کا یہی قول ہے۔(ج 5/ کتاب الکراھیۃ، الباب الثانی عشر، صفحہ 342)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
3/ جمادی الآخر 1446ھ
05/ دسمبر 2024ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

