تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

ووٹ کو بیچنا خریدنا کیسا ہے؟ اور ایسے روپے پیسے کو کھانا کیسا ہے؟

0


ووٹ کو بیچنا خریدنا کیسا ہے؟


رقم الفتوی : 668


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔ رب کریم سلامت رکھے اور علمو حکمت عطا فرمائے ۔


معروض سوال یہ ہے کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ الیکشن کے وقت زید ایک پارٹی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہے اور ان سے اپنے ووٹ کو بیچ کر پیسہ لیتا ہے اور اسی پارٹی کو ووٹ دیتا ہے، اسی طرح عمرو بھی، لیکن عمرو اپنے ووٹ کا پیسہ کئی ایک پارٹی سے لیتا ہے مگر ووٹ چوں کہ وہ صرف ایک ہی کو ڈال سکتا ہے تو ایک ہی کو دیتا ہے (لیکن پیسہ ہر پارٹی سے ملا ہے، بانٹتے وقت)۔ تو زید و عمرو کا ایسا کرنا کیسا ہے اور اس کا حکم کیا ہے۔ نیز ملے ہوئے پیسے کا حکم کیا ہوگا (حلال یا حرام)۔ اور کیا لینے والے کے اعتبار سے مسئلہ میں رخصت کا پہلو ہو سکتا ہے، جیسے لینے والا بہت ہی مفلس ہو یا مالدار ہو (تو حکم الگ ہو سکتا ہے؟)۔ 


تفصیلاً حوالہ جات کے ساتھ جواب دے کر ذاتِ باری تعالیٰ سے ماجور ہوں۔ رب کریم آپ کے علم وفضل میں خوب برکتیں عطا فرمائے ۔

جواب جلد ممکن ہو تو جلد ہی عطا فرمائیں ۔ کیوں کہ ماحول بھی ایسا چل رہا ہے۔


سائل:- محمد غفران الحق (بھیونڈی)

........................................

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ : ووٹ ایک امانت ہے اور امانت کو صحیح جگہ پر استعمال کرنا ہر شخص پر ضروری ہے کہ ووٹ صحیح پارٹی کو دے مگر ووٹ کو روپے سے بیچنا اور خریدنا جائز نہیں۔اور یہ رشوت ہے اور اس لئے بھی کہ یہ قانوناً جرم ہے۔ اور مذکورہ طریقہ پر یہ رقم ناجائز و حرام ہے اور کھانا جائز نہیں۔اور اس لئے بھی وہ قانونی طور پر جرم ہوتی ہیں ان میں ملوث ہونا اپنی ذات کو اذیت و ذلت کے لئے پیش کرنا ہے۔ترمذی شریف میں ہے : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ۔ ترجمہ : حضرت سیّدُنا عبدُ اللہ بن عَمْرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رشوت دینے والے اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔(كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب ما جاء فی الراشی والمرتشی فی الحکم)۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : کسی قانونی جرم کا ارتکاب کرکے اپنے آپ کو بلا وجہ ذلت و بلا کے لئے پیش کرنا شرعا بھی جرم ہے کما استفید من القران المجید والحدیث (جیسا کہ قرآن مجید اور حدیث پاک سے معلوم ہوا۔( جلد 23/ صفحہ 135)۔اسی میں ہے : رشوت لینا مطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائز نہیں۔جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے رشوت ہے یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔(جلد 23/صفحہ597)۔اسی میں دوسری جگہ ہے : بیع تو اس میں(اسٹیشن پر سودا بیچنے والے) اور خریداروں میں ہوگی، یہ (اسٹیشن پر سودا بیچنے کا ٹھیکہ لینے والا) ریل والوں کو روپیہ صرف اس بات کا دیتا ہے کہ میں ہی بیچوں،دوسرا نہ بیچنے پائے، یہ شرعاً خالص رشوت ہے۔ (جلد 19/ صفحہ 559)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

3/ جمادی الآخر 1446

05/ دسمبر 2024ء 

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad