تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

جہاں انتقال ہوا ہو وہیں دفن کرنا ضروری ہے یا گھر لانا ضروری ہے؟

0


جہاں انتقال ہوا ہو وہیں دفن کرنا ضروری ہے یا گھر لانا ضروری ہے؟


رقم الفتوی : 669

السلام علیکم ورحمتہ اللہُ برکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام کہ زید کی طبیعت خراب ہوگئی اور اسکی علاج کے دوران گھر سے کافی دور دو تین ہزار کیلو میٹر دور اگر زید کا انتقال ہوجائے تو میت کو گھر لانے میں کافی روپے خرچ ہو یا زید باہر مزدوری کرنے گیا اور وہیں انتقال کرگیا تو اسکی نماز جنازہ پڑھکر وہیں سپرد خاد کرنا بہتر ہے یا روپے خرچ کرکے میت کو تکلیف دیکر دوچار دن بعد گھر پر لانا بہتر اس تعلق سے ہماری شریعت کس پر عمل کرنے کی اجازت دیتی ہے حوالے سے مزین فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔

المستفتی : محمد عبد الجلیل اشرفی دیناجپور

.................................................

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ :صورت مسئولہ میں جس شہر یا گاؤں میں انتقال ہوا وہیں کے قبرستان میں دفن کرنا مستحب ہے اگر چہ یہ وہاں کے باشندے نہ ہو۔ لہٰذا افضل و مستحب یہی ہے جہاں انتقال ہوا ہو وہیں دفن کر دے اور دفن کرنے میں تاخیر نہ کرے اسے لئے کہ مردے کی تجہیز و تکفین میں بلا ضرورت شرعی تاخیر کرنا سخت ممنوع ہے اور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر میت کا بدن خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو تدفین میں تاخیر کرنا ناجائز و گناہ ہے۔مشکوٰۃ شریف میں ہے : "قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول اذا مات احد كم فلاتحبسوه واسرعوا به الي قبره"۔ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص مر جائے تو تم تاخیر نہ کرو اور جلدی کرو دفن کرنے میں۔( باب دفن المیت، صفحہ 149)رد المحتار میں ہے : "كره تأخير صلاته ودفنه ليصلي عليه جمع عظيم بعد الصلاة الجمعة"۔ترجمہ: اس مقصد سے کہ جمعہ کے بعد جماعت عظیم شریک جنازہ ہو نماز جنازہ اور دفن میں تاخیر مکروہ ہے(ج 3 /مطلب فی دفن المیت، صفحہ 147)۔الجوھرۃالنیرۃ میں ہے : "لقوله عليه السلام عجلوا بموتاكم و في نقله"۔ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے مردہ کو دفن کرنے میں جلدی کرو۔( باب الجنائز، صفحہ 129)۔فتاوی رضویہ میں ہے : لہذا علماء فرماتے ہیں اگر روز جمعہ پیش از جمعہ جنازہ تیار ہوگیا جماعت کثیر کے انتظار میں دیر نہ کریں اس مسئلہ میں بہت لحاظ رکھنا چاہئے کہ آجکل عوام میں اس کے خلاف رائج ہے جنہیں کچھ سمجھ ہے وہ تو اسی جماعت کثیر کے انتظار میں روکے رکھے ہیں اور نرے جہال نے اپنےجی سے اور باتیں تراشی ہیں کوئی کہتا ہے میت بھی نماز جمعہ میں شریک ہوجائیگی کوئی کہتا ہے جمعہ کے بعد میت کو دفن کریگے تو ہمیشہ جمعہ ملتا رہے گا یہ سب بے اصل و خلاف مقصد شرع ہیں۔( جلد 9/ صفحہ 310)۔بہار شریعت جلد اول میں ہے : جس شہر یا گاؤں وغیرہ میں انتقال ہوا وہیں کے قبرستان میں دفن کرنا مستحب ہے اگرچہ یہ وہاں رہتا نہ ہو، بلکہ جس گھر میں انتقال ہوا اس گھر والوں کے قبرستان میں دفن کریں اور دو ایک میل باہر لے جانے میں حرج نہیں کہ شہر کے قبرستان اکثر اتنے فاصلے پر ہوتے ہیں اور اگر دوسرے شہر کو اس کی لاش اٹھا لے جائیں تو اکثر علما نے منع فرمایا اور یہی صحیح ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ دفن سے پیشتر لے جانا چاہیں اور دفن کے بعد تو مطلقاً نقل کرنا ممنوع ہے۔( حصہ چہارم/ صفحہ 852/851)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

9/ جمادی الآخر 1446ھ

12/ دسمبر 2024ء

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad