تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

کورٹ سے طلاق لینے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اور اس سے کونسی طلاق واقع ہوتی ہے؟

0
کورٹ سے طلاق لینے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

رقم الفتوی : 673

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ علمائے کرام مفتیان عظام کی بارگاہ میں یہ مسئلہ پیش خدمت ہے کہ ایک صاحب ہیں جن کی کورٹ کے ذریعے طلاق ہوئی ہے جو اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں چاہتے تھے لیکن چونکہ بی بی نے ان کو دھمکی دی اگر آپ مجھے طلاق نہیں دو گے تو میں پھانسی لگا لوں گی میں مر جاؤں گی تو مجبوری میں انہوں نے صرف طلاق نامے پر سائن کیے ہیں تو مفتی صاحب کی بارگاہ میں عرض ہے کہ اب اس میں ان کی کتنی طلاقیں پڑی ہیں کیا وہ دونوں رجوع کر سکتے ہیں کیا اب ان کا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا ہے ؟ 

لہذا جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں، اور طلاق نامے میں صرف اتنا لکھا ہوا ہے کہ میں طلاق دے رہا ہوں

سائل : محمد ناصر رضا 36 گڑھ ضلع راجناند گاؤں

.............................................

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ : اگر کورٹ نے صرف بیوی کی رضامندی سے طلاق کرا دیا ہو اور شوہر کی رضامندی اور دستخط کے بغیر ہو تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔اگر شوہر نے خود تحریر لکھا ہو یا اسکی اجازت اور مشورے سے اس کے وکیل نے تیار کی ہو یا بیوی نے تیار کروائی ہو اور شوہر نے اس پر دستخط کئے ہوں تب تو طلاق واقع ہو گئی۔لہذا کورٹ کے پیپر اور قائل کے قول کے مطابق بیوی نے طلاق نامہ تیار کروائی تھی تو اس سے طلاق بائن واقع ہوگئی۔اب دوبارہ رکھنے صورت میں تجدید نکاح کرنا ضروری ہے۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : اور ہائی کورٹ وغیرہ انگریزی کچہریاں دار القضاء شرعی نہیں۔ نہ وہ حکام حکام وقضاۃ شرع،تو ایسے مسائل میں ان کی طرف رجوع اگر آسان بھی ہو تو اصلا مفید نہیں کہ ان کے فسخ کئے یہ نکاح فسخ نہ ہوگا اور عورت بدستور زوجہ شوہر رہے گی بلکہ وہاں جو عالم فقیہ سنی تمام اہل شہر سے علم فقہ میں زائد ہو اس قسم کے خاص دینی کاموں میں اس کی طرف رجوع لازم ہے، اور اگر وہاں یہ بھی نہ ہو تو چارہ کار یہ ہے کہ زن و شوہر اس معاملہ کو پنچایت پر رکھیں، مسلمان پنچ بعد ثبوت بمواجہہ شوہر تفریق کردے نکاح فسخ ہو جائے گا۔( جلد 11/ صفحہ 558)۔در مختار مع الرد المحتار میں ہے : ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة اھ۔(قوله طلقت بوصول الكتاب) أي إليها ولا يحتاج إلى النية في المستبين المرسوم، ولا يصدق في القضاء أنه عنى تجربة الخط بحر، ومفهومه أنه يصدق ديانة في المرسوم رحمتي. ولو وصل إلى أبيها فمزقه ولم يدفعه إليها، فإنه كان متصرفا في جميع أمورها فوصل إليه في بلدها وقع، وإن لم يكن كذلك فلا ما لم يصل إليها. وإن أخبرها بوصوله إليه ودفعه إليها ممزقا، وإن أمكن فهمه وقراءته وقع وإلا فلا ط عن الهندية. وفي التتارخانية: كتب في قرطاس: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في آخر أو أمر غيره بنسخه ولم يمله عليه فأتاها الكتابان طلقت ثنتين قضاء إن أقر أنهما كتاباه أو برهنت اھ۔و لو استکتب من آخر کتابا بطلاقھا و قرأہ علی الزوج فاخذہ الزوج و ختمه و عنونه و بعث به إلیھا فأتاھا وقع اِن أقر الزوج انه کتابه أو قال للرجل ابعث به إلیھا ، أو قال له اکتب نسخة و ابعث بہا إلیھا ، و إن لم یقرأنه کتابه و لم تقم بینة لکنه وصف الامر علی وجھه لا تطلق قضاء و لا دیانۃ، و کذا کل کتاب لم یکتبه بخطه و لم یمله بنفسه لایقع الطلاق مالم یقر أنه کتابه اھـ ملخصا۔ (ج 4/کتاب الطلاق، صفحہ 456)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

9/ جمادی الآخر 1446ھ

12/ دسمبر 2024ء

 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad