رقم الفتوی : 675
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائ کرام و مفتیان کرام اس مسئلے ذیل کے بارے میں زید کی سگی بہن ہندہ ہندہ کی بیٹی خالدہ ہے زید اپنی سگی بھانجی خالدہ سے شادی کیا ہے زید کاسگی بھانجی سے شادی کرنا صحیح ہے اور اس سے دو بچے بھی ہوئے ہیں
شریعت زید کے اوپر اور اس کے بچے کے اوپر کیا حکم لگاتا ہے
2
۔ زید مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آتا ہے اور مسجد کی صاف صفائی بھی کرتا ہے اور مسجد میں کبھی کبھی وہ آذان واقامت بھی دیتا ہے کیا اس کی آذان و اقامت درست ہے اس کی آذان و اقامت سے نماز ہو جائے گی یا پھر نماز کو لوٹانا پڑے گا
3
۔ مسجد کے نمازی لوگ کہتے ہیں کہ اس کو آذان و اقامت دینا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی سگی بھانجی جو غیر محرم ہے اس سے وہ شادی کیا ہے جو حرام ہے اس لیے اس کی آذان و اقامت دینا جائز نہیں
4
۔ اب زید کے گھر جانا آنا ان کے گھر کھانا پینا ان سے رشتہ رکھنا ملنا جلنا اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اس کے گھر میں رشتہ وغیرہ وغیرہ کرنا درست ہے یا پھر ان سے قطع تعلق رکھنا ہے
مفتیان کرام قران و حدیث کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں
سائل : محمد نصیر الدین رضوی گلبرگہ شریف کرناٹک17 دسمبر 2024ء14 جمادی الثانی 1446ھ بروز منگل
.........................................
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : صورت مسئولہ میں زید کی اپنی سگی بھانجی سے شادی کرنا ناجائز و حرام ہے۔ اور اس سے جو اولاد پیدا ہوئے ہیں وہ سب ولد الزنا ہے۔ لہذا زید پر فرض ہے کہ فوراً جدا ہو جائے اور زنا سے بچے،اور وہاں کے لوگوں پر ضروری ہے کہ اس کو جدا کرا دے اگر وہ نہ مانے تو اس کا سخت سماجی بائیکاٹ کریں ورنہ وہ بھی گناہ گار ہوں گے۔ایسے لوگوں کے گھر کھانا پینا آنا جانا نہ کرے اور رشتہ وغیرہ نہ کرے جب تک وہ سچے دل سے توبہ واستغفار نہ کر لے اس وقت تک سماجی بائیکاٹ رکھیں۔ قرآن مجید میں ہے : حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ. ترجمہ : تم پر حرام ہیں تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں۔ ( سورہ نساء، آیت 22)۔دوسری جگہ ہے : وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ. ترجمہ: اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔( پارہ 7 سورہ انعام آیت 68)۔
(ا)
مسجد کی صاف صفائی کرنا اچھی بات ہے مذکورہ بالا باتوں کی وجہ سے وہ فاسق معلن ہے اور فاسق معلن کا اذان و اقامت دینا جائز نہیں ہے اور اذان و اقامت کا اعادہ کیا جائے۔ مگر نماز ہو جائے گی۔در مختار میں ہے :و يكره اذان فاسق، و يعاد. (مخلصا ج 2/کتاب الصلاۃ، باب الأذان، صفحہ 75)رد المحتار میں ہے : فیعاد اذان الکل ندبا علی الصح کما قدمناہ عن القھستانی ملخصا۔( ج 2/کتاب الصلاۃ، باب الأذان، صفحہ 75) فتاویٰ رضویہ میں ہے : فاسق کی اذان اگر چہ اقامت شعار کاکام دے مگر اعلام کہ اس کا بڑا کام ہے اس سے حاصل نہیں ہوتا،نہ فاسق کی اذان پر وقت روزہ ونماز میں اعتماد جائز۔لہذا مندوب ہے کہ اگر فاسق نے اذان دی ہو تو اس پر قناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے، تو جب تک یہ شخص صدق دل سے تائب نہ ہو اسے ہرگز مؤذن نہ رکھا جائے مسجد سے جدا کر دینا ضرور ہے۔ در مختار میں ہے :جزم المصنف بعدم صحۃ اذان مجنون ومعتوہ وصبی لایعقل، قلت وکافر وفاسق لعدم قبول قولہ فی الدیانات۔مصنف نے دیوانے، ناقص العقل اور ناسمجھ بچے کی اذان کے بارے میں عدم صحت کا قول کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کافر وفاسق کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ امور دینیہ میں ان کا قول قابل قبول نہیں۔( جلد 5/ صفحہ 377)۔بہار شریعت جلد اول میں ہے : خنثیٰ و فاسِق اگر چہ عالِم ہی ہو اور نشہ والے اور پاگل اور نا سمجھ بچّے اور جنب کی اَذان مکروہ ہے،ان سب کی اَذان کا اعادہ کیا جائے۔( حصہ سوم/ صفحہ 470)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
25/ جمادی الآخر 1446ھ
27/ دسمبر 2024ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

