رقم الفتوی : 683
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید ٹوٹویعنی ای رکشہ کی دکان کرنا چاہتا ہے جس میں گراہکوں کو قسطوار ٹوٹو بیچے گا اور ہرماہ روپے وصول کریگا لگ بھگ دوسال کی مدت مقرر ہوگی ظاہر سی بات ہے اس سے کچھ رقم بھی قیمت زیادہ وصول کی جائے گی
دریافت طلب امر یہ ہے کہ زائد رقم سود ہو گی یا نہیں اور اس طرح تجارت کرنی جائز ہوگی یانہیں مدلل جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں عنداللہ ماجور ہوں گا
المستفتی : محمد حامد رضا،ساکن برناباڑی پوسٹ سوناپور ہاٹ تھانہ چوپڑاضلع اتردیناجپوربنگال
.........................................
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : قسطوں پر ٹوٹو (موٹر سائیکل،گاڑی وغیرہ) کا کاروبار کرنا جائز ہے جبکہ فریقین خریداری کے وقت اس چیز کی قیمت متعین کر لیں ہر ماہ سال قسط وصولی کریں اور کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا اضافی وصول نہ کرے۔اگر وقت پر قسط ادا نہ کرنے پر اضافی جرمانہ لینے کی شرط لگا دی جائے اور جرمانہ وصول کریں تو یہ ناجائز و گناہ ہے ناجائز و گناہ اضافی جرمانہ لینے کی وجہ سے ہے نہ کہ اصل بیع میں۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ.ترجمہ : اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو۔( پارہ5/ سورۃ النساء،آیت:29)۔درمختار مع رد المحتار میں ہے :" وصح بثمن حال و مؤجل الي معلوم لئلا يفضي إلى النزاع منها اشتراط أن يعطيه الثمن على التفاريق أو كل اسبوع البعض "( ج7/ کتاب البیوع،مطلب فی التاجیل الخ، صفحہ 52)۔فتح القدیر میں ہے : " الثمن على تقدير النقد ألفا و على تقدير النسئية ألفين ليس في معني الربا ۔ترجمہ : نقد کی صورت میں ثمن ایک ہزار پر ہے اور ادھار کی صورت میں دو ہزار سود کے حکم میں نہیں ہے ( ج 6/کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد، صفحہ410 )۔فتاویٰ رضویہ میں ہے : قرضوں بیچنے میں نقد بیچنے سے دام زائد لینا کوئی مضائقہ نہیں رکھتا یہ باہمی تراضی بائع و مشتری پر ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : " إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ "( جلد 16/ صفحہ 495)۔اسی میں ہے : یہ فعل اگر چہ نرخ بازار سے کیسا ہی تفاوت ہو حرام و ناجائز نہیں کہ وہ مشتری پر جبر نہیں کرتا نہ اسے دھوکا دیتا ہے اور اپنے مال کا ہر شخص کو اختیار ہے چاہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کو دے مشتری کو غرض ہولے ،نہ ہو نہ لے،رد المحتار میں ہے لو باع كاغذة بألف يجوز ولا يكره ۔ترجمہ اگر کسی نے کاغذ کا ٹکڑا ہزار کے بدلے میں بیچا تو جائز ہے اور مکروہ نہیں ہے( ج 17/ صفحہ 97/98)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ
حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔
19/ شعبان المعظم 1446ھ
18/ فروری 2025ء
رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_

