رقم الفتوی : 692
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد سلام عرض یہ ہے کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مرحوم محمد اسماعیل کے پانچ بیٹے ہیں جن میں ایک کا نام عبدالستار دوسرے کا نام عبدالغفار تیسرے کانام عبدالجبار چوتھے کانام عبد الرشید پانچویں کانام عبد السلام، عبدالستار صاحب کا والد کے انتقال سے چند مہینے پہلے انتقال ہوگیا تھا،عبدالستار صاحب کے چار لڑکے دو لڑکیاں سب شادی شدہ ہیں اور بیوی بھی زندہ ہے ،
اور محمد اسماعیل کے تین بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک بیٹی کا والد کے انتقال کے بعد انتقال ہو گیا ہے جس کے تین بیٹیاں ایک بیٹا اور شوہر ہے لیکن شوہر اور بیٹا دیوبندی ہے اس نے دوسری شادی کر لی ہے، اب محمد اسماعیل صاحب کے ان پانچوں بیٹوں اور تین بیٹیوں میں کس طرح گھر کو تقسیم کیا جائے اور اگر اس کی قیمت مثلا 10 لاکھ ہو تو اسے کس طرح بانٹا جائے کس کو کتنا ملے گا حضور جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں عین نوازش ہوگی فقط وسلام
محمد اشرف رضا خطیب و امام مدینہ مسجد ادے پور 9175892786
....................................................
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ : بر تقدیر صدق سوال "بعد تقديم ما تقدم على الإرث وانحصار ورثة في المذكورين" جب محمد اسماعیل صاحب کی زندگی ہی میں عبد السّتار صاحب انتقال کر گئے تھے تو محمد اسماعیل صاحب کی جائداد سے عبد السّتار صاحب کو کوئی حصہ نہیں ملے گا اور ان کی اولاد کو بھی کوئی حصہ نہیں ملے گا کیونکہ بیٹا کی موجودگی میں پوتے ،پوتی اور بہو کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے۔مگر ان کے فیملی کے ساتھ حسن لوک کرتے رہیں۔اور جس بیٹی کا انتقال والد کے انتقال کے بعد ہوا ہو اسے حصہ ملے گی۔ محمد اسماعیل صاحب کی جائداد منقولہ غیر منقولہ کو گیارہ (11) حصے کئے جائیں گے چار بیٹے کو آٹھ (8) حصے، یعنی ہر ایک بیٹا کو دو دو حصے کر کے ملے گا۔اور تین بیٹیاں کو تین (3) حصے،یعنی ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصے کر کے ملے گی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ لِلـذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ"ترجمہ: بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ۔(پارہ4/ سورہ نساء آیت11)۔درمختار میں ہے : يجوز العصبة بنفسه ما أبقت الفرائض وعند الانفراد يجوز جميع المال ۔ اسی میں ہے : يقدم الاقرب فالاقرب۔ ( ج 10 کتاب الفرائض صفحہ 517/518 )۔فتاویٰ ہندیہ میں ہے :.إذا انفرد أخذ جميع المال. ( الباب الثالث فی العصبات، صفحہ 451)اسی میں ہے: الاقرب يحجوب الا بعد كالابن يحجب اولاد الابن ۔( ج6 کتاب الفرائض، الباب الرابع فی الحجب، صفحہ 452)۔
الاحیاء۔۔۔۔ عبد الغفار 181,818/ عبد الجبار 181,818/عبد الرشید 181,818/ عبد السلام 181,818/ بیٹی ہندہ 90,909 /بیٹی ہندہ 90,909/ تیسری بیٹی کی اولاد میں سے تین بیٹیاں کو حصے ملے گی۔اور شوہر اور بیٹا کو دیوبندی ہونے کی وجہ سے حصے نہیں ملے گا۔ ایک بیٹی کا حصہ مثلاً ہندہ 30,303 / ہندہ 30,303/ہندہ 30,303۔۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_

