تلاش کے نتائج حاصل کرنے کے لیے یہاں ٹائپ کریں۔

خطبہ کی اذان ( اذان ثانی) مسجد کے اندر دینا جائز ہے یا نہیں؟ مسجد کے اندر اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ Khutbah ki azan (azan sani) masjid ke andar dena jaiz hai ya nahin? Masjid ke andar azan dena jaiz hai ya nahin? खुतबे की अज़ान (अज़ान सनी) मस्जिद के अंदर देना जायज़ है या नहीं? मस्जिद के अंदर अज़ान देना जायज़ है या नहीं?

0

 

خطبہ کی اذان ( اذان ثانی) مسجد کے اندر دینا جائز ہے یا نہیں؟   مسجد کے اندر اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟  Khutbah ki azan (azan sani) masjid ke andar dena jaiz hai ya nahin? Masjid ke andar azan dena jaiz hai ya nahin?



رقم الفتوی : 694



السلامُ علیکم رحمۃاللہ و برکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جمعہ کی نماز میں جو اذان ثانی دی جاتی ہے مسجد کے اندر یا باہر دی جاۓ کیونکی میں نے کہیں دیکھا تھا کہ جمعہ کی اذان ثانی مسجدِ کے اندر ہو رہی تھی تو کیا مسجدِ کے اندر اذان ثانی دینا کیسا ہے مہربانی کرکے قرآن و حدیث کے روشنی میں دلیل کے ساتھ تصفّیٖ بخش جواب عنایت فرمائے تاکہ آگے چل کر ہماری اذان ثانی دُرست ہو فقط سلام 

سائل : حکیم اشرفی گرام پنچایت گورو کھال پوٹھیا کشنگنج بہار الہند

..................................................

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعونہ تعالیٰ : مطلقاً مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ تحریمی ہے جمعہ کے دن اذان ثانی مسجد کے اندر ممبر کے قریب جہاں بھی یہ اذان دی جاتی ہے یہ ناجائز و بدعت اور مکروہ تحریمی ہے۔اور مسجد کے باہر دینا سنت ہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں یہ اذان مسجد سے باہر دروازے پر ہوتی تھی۔اور کہیں بھی یہ منقول نہیں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین نے مسجد کے اندر اذان دلوائی ہو، اگر اس کی اجازت ہوتی تو بیان جواز کے لئے کبھی ایسا ضرور فرماتے۔سنن ابی داؤد شریف میں ہے: عن السائب بن یزید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنه قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالي علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابی بکر وعمر۔ ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے فرمایا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی اور ایسا ہی ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانے میں۔(کتاب الصلاۃ ،باب النداء یوم الجمعہ، صفحہ 281)۔فتاوٰی قاضی خان میں ہے : لایؤذن فی المسجد. ترجمہ : مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے۔(ج1/ کتاب الصلوٰۃ، مسائل الاذان، صفحہ 37)۔فتاوٰی ہندیہ میں ہے : لایؤذن فی المسجد. ترجمہ : مسجد کے اندر اذان منع ہے۔(ج1/کتاب الصلاۃ،الباب الثانی فی الاذان، صفحہ 55)۔بحر الرائق میں ہے : لایؤذن فی المسجد. ترجمہ : مسجد کے اندر اذان کی ممانعت ہے۔( ج1/ کتاب الصلوٰۃ، باب الاذان، صفحہ 55)۔فتح القدیر میں ہے : قالوا لایؤذن فی المسجد. ترجمہ: علماء نے مسجد میں اذان دینے کو منع فرمایا ہے۔( ج1/کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعہ، صفحہ 215)۔اسی میں ہے : ھو ذکر اللّٰہ فی المسجد ای فی حدودہ لکراھة الاذان فی داخله. ترجمہ: جمعہ کا خطبہ مثل اذان ذکرِ الٰہی ہے مسجد میں یعنی حدودِ مسجد میں اس لئے کہ مسجد کے اندر اذان مکروہ ہے۔(ج1/ کتاب الصلاۃ ،باب الجمعۃ، صفحہ 214)۔طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے : یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القھستانی عن النظم. یعنی نظم امام زندویسی پھر قہستانی میں ہے کہ مسجد میں اذان مکروہ ہے۔( کتاب الصلاۃ، باب الاذان،صفحہ 107)۔

وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم_


کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ

حضرت مفتی مظہر حسین سعدی رضوی برکاتی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن: نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔

08/ ربیع الاول 1447ھ

01/ ستمبر 2025ء 


 رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎_


Post a Comment

0 Comments

Top Post Ad

Below Post Ad