السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عابدہ اعتکاف میں بیٹھی ہے کیا وہ گھر کے کام کاج بھی کر سکتی ہے یا نہیں۔
سائلہ : خالدہ ممبئی
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ
معتکف والی کا اعتکاف واجب یا سنت مؤکدہ میں اپنی مسجد بیت سے نکل کر گھر کا کام کاج کرنی جائز نہیں ہے اگر وہ گھر کا کام کاج کے لئے نکلی تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا کیونکہ معتکف کے لئے مسجد سے نکلنے کے لئے دو عذر ہیں (1) ایک عذر طبعی مثلاً پاخانہ، پیشاب، استنجا، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل،(2)دوسرا عذر شرعی مثلاً عید یا جمعہ کے لیے جانا یا اذان کہنے کے لیے منارہ پر جانا۔ یہاں تک کہ فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ اگر ڈوبنے یا جلنے والے کے بچانے کے لیے مسجد سے باہر گیا یا گواہی دینے کے لیے گیا یا جہاد میں سب لوگوں کا بلاوا ہوا اور یہ بھی نکلا یا مریض کی عیادت یا نمازِ جنازہ کے لیے گیا، اگرچہ کوئی دوسرا پڑھنے والا نہ ہو تو ان سب صورتوں میں اعتکاف فاسد ہوگیا۔
تنویر الابصار مع در المختار میں ہے: (و حرم عليه الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول و غائط و غسل لو احتلم ولايمكنه الاغتسال في المسجد، كذا في النهر (أو )شرعية كعيد وأذان لو مؤذنا و باب المنارة خارج المسجد" ( ج3/ کتاب الصوم، باب الاعتکاف، صفحہ 436/434) فتاویٰ ہندیہ میں ہے : لو خرج لجنازة يفسد اعتكافه و كذا لصلاتها و لو تعينت عليه أو لانجاء الغريق أو الحريق أو الجهاد اذا كان النفير عاما أو لأداء الشهادة هكذا في التبيين" ( ج1/ کتاب الصوم، الباب السابع في الاعتکاف، صفحہ 212)۔
وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
_کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ_
حضرت مفتی محمد مظہر حسین سعدی رضوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی،خادم سعدی دارالافتا، متوطن: نل باری، سوناپور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال، الہند۔
*21/ رمضان المبارک 1442ھ*
*4/ مئ 2021ء*
*_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_


Mashallah
ReplyDeleteاللہ پاک آپ کے عمر و اقبال علم و فضل میں بے پناہ برکت عطا فرمائے
ReplyDeleteآمین
Delete